اقبال اعوان:
لانڈھی بھینس کالونی کراچی میں زہریلے بھوسی ٹکڑے کھانے سے بھینسیں مرنے لگیں۔ دو روزکے دوران 69 بھینسیں مر چکی ہیں جبکہ 600 سے زائد کی حالت خراب ہے۔ مذکورہ واقعہ جمعہ کی صبح چار باڑوں سے شروع ہوا۔ واضح رہے کہ آج کل دودھ دینے والی ایک بھینس 3 لاکھ روپے تک مالیت کی آرہی ہے۔ ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایسشن کے صدرشاکرگجر کا کہنا ہے کہ پنجاب کی طرح سندھ کا محکمہ لائیو اسٹاکسٹ بھی بھینسوں کو بھوسی ٹکرے کھلانے پر پابندی عائد کرے۔ کیوں کہ ہر دو تین ماہ بعد اس طرح کا واقعہ رونما ہورہا ہے۔ جبکہ سندھ حکومت متاثرین کو مالی معاوضہ دے۔
ایک باڑے کے مالک محمد شاہد کا کہنا ہے کہ شہر سے بھوسی ٹکڑے سپلائی ہوئے تھے جو رات کو بھگو کر رکھے تھے اور صبح بھینسوں کو دیئے، اس دوران بھینسیں چکرا کر گرنے لگی تھیں۔ واقعہ کے بعد شہر میں قائم باڑوں میں اس حوالے سے خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ مرنے والی بھینسوں کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا کہ کراچی میں یہ سہولت موجود نہیں ہے۔ صرف ٹنڈو جام کی زرعی یونیورسٹی میں یہ سہولت موجود ہے۔ مرنے والی بعض بھینسوں کو ذبح کر کے گڑھے کھود کر ڈمپ کر دیا گیا ہے کہ گوشت بھی زہریلا ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ کراچی کی مختلف بھینس کالونی میں 20 لاکھ سے زائد گائے، بھینسیں موجود ہیں۔ تاہم زیادہ تعداد بھینسوں کی ہے۔ ان گائے بھینسوں کو جہاں کھانے کو ہرا چارہ، دانہ، بھوسہ اور دیگر اجناس دیا جاتا ہے، وہیں دودھ زیادہ دینے اور طاقت کے لیے شہر بھر سے اکٹھی کی گئی بھوسی (آٹے کو چھان کر چھلنی میں آنے والے برادے) کو روٹی کے بچے کھچے ٹکڑوں میں ملا کر پانی میں بھگو کر دیے جاتے ہیں۔ شہر میں گھر گھر ٹین ڈبے اکٹھے کرنے والے کباڑی یہ بھوسی ٹکڑے خریدتے ہیں اور ٹھیلے پر جمع کرتے ہیں۔ ان بھوسی ٹکڑوں کے ساتھ ٹڈی مار پائوڈر کے خالی ڈبے، کیڑوں، مکھی کو مارنے والی دوائی کے ڈبے، مختلف کیمیکل کے ڈبے بھی رکھے ہوتے ہیں۔ اس طرح زہریلا پائوڈر، کیمیکل بھوسی ٹکڑوں پر لگ جاتا ہے۔ یہ بھوسی ٹکڑے ہزاروں کلو کے حساب سے جمع کر کے بھینس کالونی کے باڑوں تک جاتے ہیں اور وہاں کوئی چیک نہیں ہوتا کہ زہریلے تو نہیں ہیں۔ بھینسوں کو پانی میں چند گھنٹے بھگو کر دیگر اجناس کے ساتھ ملا کر کھلاتے ہیں۔ پنجاب کے لائیو اسٹاکسٹ کے محکمے نے متعدد واقعات کے بعد بھوسی ٹکڑوں پر پابندی لگا دی تھی۔ کیوں کہ اس طرح کے واقعات اکثر اوقات ہوتے رہتے ہیں اور نقصان اٹھانے والے باڑے کے مالکان خاموش ہو جاتے ہیں کہ اتفاقی حادثہ ہے۔ پولیس کارروائی نہیں کراتے۔
جمعہ کی صبح بھینس کالونی لانڈھی میں واقع شبیر اور محمد شاہد سمیت چار باڑوں میں زہریلی بھوسی ٹکڑے کھانے سے بھینسوں کے مرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان چاروں باڑوں پر بھوسی ٹکڑے ایک ہی ہول سیلر نے سپلائی کیے تھے۔ باڑے والے محمد شاہد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ان کے باڑے پر ساڑھے تین سو بھینسیں ہیں۔ رات کو شہر سے بھوسی ٹکڑے ٹرک میں آئے تھے اور گوالوں نے بھگو کر رکھ دیے تھے۔ علیٰ الصبح بھینسوں کو دودھ نکالنے کے دوران بھوسی ٹکڑے دینا شروع کئے تھے کہ بھینسیں گرنے لگیں۔ ان کے منہ سے سفید جھاگ نکلتے دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ فوڈ پوائزنگ ہوئی ہے۔ گوالوں نے مرنے والی بھینسوں کو الگ کیا اور تڑپنے والی بھینسوں کو ذبح کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس دوران ڈیری کیٹل فارمرز کے رہنما آگئے اور سندھ لائیو اسٹاکسٹ کے محکمے کو افسران کو اطلاع دی۔ جانوروں کے ڈاکٹرز اور عملے کے لوگ آگئے اور ہریلے بھوسی ٹکڑے کھانے سے متاثر جانوروں کو طبی امداد دی گئی۔ اب بھی 300 سے زائد بھینسیں نازک حالت میں ہیں جن کا علاج چل رہا ہے۔ جبکہ باڑے کے مالک شبیر کا کہنا ہے تھا انہوں نے بھی بھوسی ٹکڑے کھلائے تھے اس طرح چار باڑوں کے 69 جانور (بھینسیں) مر چکی ہیں اور 600 سے زائد متاثر ہیں۔
لانڈھی جانوروں کے اسپتال کا عملہ باڑوں پر موجود ہے۔ تمام باڑوں پر موجود بھینسوں پر نظر رکھی جارہی ہے۔ ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن کے صدر شاکر گجر کا کہنا تھا کہ بعض بھینسیں ذبح کر دی گئیں اور بعض مر گئی تھیں۔ ان کو گاڑیوں میں ساتھ لے جاکر اپنے سامنے ڈمپ کرایا ہے کہ بے ضمیر لوگ چند روپوں کے لیے ان کا بھی گوشت بنا کر فروخت کر دیں گے۔ متاثرہ جانوروں کا دودھ بھی سپلائی نہیں کررہے ہیں کہ زہریلے پن کا اثر آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ لائیو اسٹاکسٹ متاثرین کو فوری معاوضہ دے اور واقعہ کی چھان بین کرائے اور روک تھام کے لیے بھوسی ٹکڑوں پر پابندی عائد کی جائے۔ کراچی میں سرکاری سطح پر بھینسوں کی موت کی وجہ جاننے کے حوالے سے پوسٹ مارٹم کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ البتہ حیدرآباد کے قریب ٹنڈو جام کی زرعی یونیورسٹی میں انتظام ہے۔ تاہم کوشش کررہے ہیں کہ متاثرہ بھینسوں کا اچھا علاج ہو جائے۔ تین لاکھ کی ایک بھینس ہے، اس طرح دو کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔