کراچی(رپورٹ: سید علی حسن) سندھ ہائیکورٹ کے 4 شہروں کے بینچزکی عدالتوں میں سول ،کرمنل سمیت 83 ہزار سے زائد کیسز زیرالتوا ہیں۔صوبائی ، شہری وضلعی اورفریقین کی جانب سے جوابات وقت پر جمع نہ کرانے جانے کی وجہ سے عدالتوں میں زیرسماعت کھیلوں کے میدان، رفاعی پلاٹس وزمینوں پرقبضے، غیرقانونی تعمیرات، تجاوزات، شہریت کے مسائل، اضافی بلزوصولی، ملازمتیں نہ ملنے اورفارغ کئے جانے ، ہرجانوں کے دعوے، زمینوں و جائیداد کے تنازع، بٹوارے، تحفظ فراہمی، بنیادی سہلتوں کی فراہمی سمیت دیگر اہم نوعیت کی درخواستیں و اپیلیں التوا کا شکار ہیں۔ سیاست دانوں و سرکاری افسران کے کیسز بھی زیرالتوا مقدمات میں شامل ہیں۔
قانونی ماہرین نے زیرسماعت مقدمات زیادہ ہونے کی وجہ عدالتوں کی کمی ، خالی سیٹوں پر نئے ججز کی عدم تعیناتی اورسماعتیں ملتوی ہونا قرار دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عدالت عالیہ سندھ میں کراچی، حیدرآباد،سکھراورلاڑکانہ کے الگ الگ بینچز قائم ہیں جوروزانہ کی بنیاد پر شہریوں وملزمان کی کرمنل، سول سمیت دیگر اپیلوں اور درخواستوں کی سماعتیں کرتے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں سول، کرمنل سمیت 83 ہزار 855 کیسز زیرالتوا ہیں جبکہ گزشتہ سال زیرالتوا مقدمات کی تعداد 84O ہزار 104 تھی۔
سندھ ہائیکورٹ میں ہرماہ تقریبا 1800 سے 1900 نئے مقدمات دخل کئے جاتے ہیں جبکہ عدالتوں میں ہرماہ تقریبا اتنے ہی مقدمات نمٹائے جاتے ہیں۔اس علاوہ سندھ ہائیکورٹ کراچی، سکھر، حیدرآباد اور لاڑکانہ بینچز کی عدالتوں میں مجموعی تقریبا 1186 مقدمات سنے جاتے ہیں جبکہ وکلا کی جانب سے جنرل ایڈجسمنٹ (ملتوی) کرانے سمیت مجموعی طور پر تقریبا 873 مقدمات ملتوی وڈسچارج ہوجاتے ہیں۔ روزمرہ کی جاری ہونےو الی عدالتوں کی کازلسٹ کے مطابق سندھ ہائییکورٹ کے پرنسپل سیٹ کراچی کی عداالتوں میں یومیہ تقریبا 630 کیسزسنے جاتے ہیں جبکہ 525 مقدمات ملتوی وڈسچارج ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سکھر بینچز کی عدالتوں میں یومیہ تقریبا 300 کیسز سنے جاتے ہیں۔ بکہ 240 مقدمات ملتوی و ڈسچارج ہوتے ہیں۔
حیدرآباد بینچز کی عدالتوں میں یومیہ 147 کےقریب کیسز سنے جاتے ہیں جبکہ 19 مقدمات ملتوی و ڈسچارج ہوجاتے ہیں۔لاڑکانہ بینچز کی عدالتوں میں یومیہ 109 مقدمات سنے جاتے ہیں جبکہ 91 کے قریب کیسز ملتوی و ڈسچارج ہوجاتے ہیں۔ زیرالتوا کیسز میں مجرمان کی ماتحت عدالتوں سے ملنے والی سزائیوں کے خلاف اپیلیں، ضمانتوں کی درخواستیں، لاپتا افراد کی بازیابی، زمینوں وجائیداد کے تنازع، بٹوارے، کھیلوں کے میدان وزمینوں پرقبضے، غیرقانونی تعمیرات، تجاوزات، شہریت کے مسائل، اضافی بلز وصولی، ملازمتیں نہ ملنے اورفارغ کئےجانے، ہرجانوں کے دعوے، تقرریوں، تنزلیوں و تبادلوں سے متعلق درخواستیں، عدالتی احکامات پرنظر ثانی، توہین عدالت کی درخواستیں، مختلف محکموں کی جانب سے شکایات نہ سنے، تحفظ فراہمی، صوبائی وضلعی انتظامیہ کی جانب سے علاقوں میں پانی، صحت وتعلیم کے مسائل پرشہریوں کی درخواستیں ودیگر شامل ہیں۔
ان کے علاوہ سندھ ہائیکورٹ میں سیاست دانوں و سرکاری عہدیداران کے کیسز بھی زیرسماعت ہیں جن میں اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کے گھر پر چھاپے کے خلاف درخواستیں، سندھ میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد سے متعلق ایم کیو ایم رہنما کنورنوید جمیل کی درخواستیں، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی نااہلی کی درخواست بحال کرنے سے متعلق دائر درخواست، صوبائی وزیرساجد جوکھیو کی نااہلی سےمتلق درخواست، پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کی میبنہ جعلی ڈگری سے متعلق،عطا محمد چانڈیوں کی درخواست، پاکستان اسٹیل مل میگا کرپشن و سابق چئیرمین معین آفتا۔ شیخ کی بریت کےخلاف پراسیکیوشن کی اپیل ، تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر کی توہین الیکشن کمیشن نوٹس کیخلاف درخواست سمیت دیگر کیسز شامل ہیں۔ شہریوں کی جانب سے متعدد درخواستوں کی صوبائی، شہری وضلعی محکمو اورانتظامیہ کی جانب سے اپنی درخواستوں میں فریق بنایا گیا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ مختلف محکمون کی جانب سے وقت پرجوابات جمع نہیں کرائے جاتے اورمہینوں تاخیر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے بھی بئی مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ اس حوالے سے سندھ بار کونسل کےوائس چئیرمین ذوالفقار علی جلبانی ایڈووکیٹ نے امت کو بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ میں مقدمات زیرالتوا رہنے کہ کوئی وجہ نہیں بلکہ بہت سے وجوہات ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ میں ججز کی کمی ہے، بہت سی سیٹیں خالی ہیں جہاں نئے ججز کی اپوائنمنٹ ضروری ہے اور عدالتوں کی تعداد بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ روزانہ کی کازلسٹ میں اگر کیس لگ جائے تو اسے ڈسچارج کرنے کی وجہ نہیں ہونے چاہئے جبکہ بلا وجہ کوئی فریق یا ان کا وکیل پیش نہیں ہوتا اور کیس کو طول دینے کوشش کرے تو ان پرجرمانہ عائد ہونا چاہئے تاکہ زیرسماعت مقدمات کی تعداد کم ہوسکے۔