میگزین رپورٹ:
جنات کے انسانوں پر حاوی ہونے کے کیسز پر بات کرتے ہوئے روحانی عامل حکیم صاحب نے بتایا کہ بیشتر لوگوں پر جنات نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک طرح سے نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہی بات ان کے سامنے کی جائے تو وہ فوراً چڑ جاتے ہیں اور اس معالج کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگتے ہیں۔ جبکہ اگر کوئی معالج ان کی اس بات پر یقین کر لے تو وہ اسے لوگوں کے سامنے بہت پہنچا ہوا عامل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی صورت حال کا شکار ہونے کی وجہ سے جعلی عاملین کے ہاتھوں بری طرح مالی اور بعض اوقات دیگر استیصالات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن اپنی نفسیات کے تحت انا کو تسکین پہنچانے کے لیے وہ یہ سب کچھ برداشت کرتے رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ایک طویل عرصے سے ایسی کسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔
شریک حیات کی جانب سے مسلسل نظرانداز کیے جانے کے باعث وہ ایسی نفسیاتی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں کہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے اپنے اوپر جنات، چڑیلوں اور بھوت وغیرہ کے اثرات کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں۔ ایک اور صورت میں بھی وہ اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں جس میں انہیں ماضی میں کیا گیا کوئی جرم ستا رہا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے اندر اس جرم سے تائب ہونے کی جرأت نہیں رکھتے۔ دراصل وہ اس گناہ سے اللہ پاک کے حضور تو خوب توبہ کر چکے ہوتے ہیں، لیکن کسی بندے کے سامنے انہیں جھکنا منظور نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس بندے کے سامنے اور لوگوں کی نظروں میں ان کی بے عزتی ہو۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے اور اگر وہ اس بندے سے معافی مانگ کر اپنے گناہ کی تلافی کر لیں تو ناصرف لوگوں کی نظروں میں ان کی عزت بڑھے بلکہ وہ اس بیماری سے یا نفسیاتی عارضے سے بھی چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔
ایسے گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہوتا ہے جو صرف مظلوم کے معاف کرنے سے ہی معاف ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی ایک واضح نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی کافی بہادر اور جنات، بھوتوں، بدروحوں اور چڑیلوں سے لڑائی کا ماہر ثابت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ جب ان پر حاضری ہوتی ہے تو انہیں سامنے مجسم شکل میں نظر آتے ہیں اور وہ ان سے باقاعدہ لـڑائی بھی لڑتے ہیں۔ درحقیقت ایسا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ جنات نہ تو مجسم ہو کر کسی بھی مریض کے سامنے آتے ہیں اور نہ ہی جس پر جنات حاضر ہوں،ِ وہ ان سے لڑائی کر سکتا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس جس شخص پر جنات حاضر ہوتے ہوں، وہ جنات کی حاضری کے وقت خود کو نیند یا بے ہوشی کی حالت میں محسوس کرتا ہے۔ جنات کے جانے کے بعد بھی اسے یہ بات ہرگز محسوس نہیں ہوتی کہ اس پر جنات حملہ آور ہوئے تھے یا جنات کی موجودگی میں اس کے ساتھ کیا کچھ بیتا۔ حالانکہ عاملین جنات کو بھگانے اور انہیں ایذائیں پہنچانے کے لیے عام طور سے مریض کو بہت زیادہ پیٹ بھی ڈالتے ہیں۔
مثال کے طور پر چند دنوں قبل فون کرنے والی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ان پر جنات کا شدید ترین حملہ ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان پر جنات کا پورا ایک خاندان اثرانداز ہورہا ہے جو انہیں کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرنے دیتا۔ اپنی کہانی سناتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے گزشتہ دس سال میں کئی عاملوں کو دکھایا تھا لیکن کوئی بھی ان پر موجود جن کو تلاش یا حاضر کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ جبکہ صرف ایک عامل نے ان پر موجود جنات کو حاضر کیا تھا اور وہ بھی گیارہ ماہ کی طویل ریاضتوں کے بعد اس جن کو اتارنے میں ناکام رہے تھے۔ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ اس خاتون پر کوئی جن موجود نہیں تھا بلکہ درحقیقت یہ ایک خاص قسم کی نفسیاتی بیماری تھی۔ جب انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تو وہ فوری طور پر غصے میں آگئی تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ حکیم صاحب ان کا علاج نہیں کر سکتے۔ حکیم صاحب کی باتوں سے انہیں گمان ہو چکا تھا کہ وہ ان کا علاج نہیں کر سکتے اور ان کے پاس جانا صرف وقت ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔ حیرت انگیز امر یہ تھا کہ جتنی زیادہ وہ پہلے حکیم صاحب سے علاج کرنے کے بارے میں برانگیختہ تھیں، یہ بات معلوم ہونے کے بعد کہ ان پر جنات وغیرہ کا کوئی سایہ نہیں تھا، اتنی ہی شدت سے وہ حکیم صاحب کے پاس جانے یا اپنے شوہر کو بھیجنے سے انکاری ہوگئیں۔
اسی طرح حکیم صاحب کا کہنا تھا کہ ہمارے توسط سے لاہور سے آنے والے ایک شخص کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔ دراصل اس شخص نے ماضی میں بعض گھنائونے گناہ کیے تھے اور بعض لوگوں کے جسمانی استیصال سمیت متعدد برائیوں میں ملوث رہا تھا۔ اگرچہ اب اس نے اللہ پاک کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ کر لی تھی۔ لیکن لوگوں کے دبائے گئے حقوق اسے اندرون خانہ کسی سانپ کی طرح ڈس رہے تھے جس کی وجہ سے وہ ایک خاص نفسیاتی عارضے میں مبتلا تھا۔ اس کی کہانی بھی بالکل اسی خاتون کی کہانی کی طرح ہے۔ ابتدا میں وہ بھی انتہائی سرگرمی سے حکیم صاحب کو تلاش کرتے ہوئے ان تک پہنچے تھے۔ لیکن جب فون پر ہی حکیم صاحب نے انہیں بتایا کہ ان پر کوئی جن وغیرہ نہیں تھا تو ان کا کہنا تھا کہ حکیم صاحب کو خود جنات وغیرہ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔
ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان پر کوئی مخلوق عرصہ دس سال سے قابض ہے جو انہیں کوئی کام نہیں کرنے دیتی۔ جب بھی وہ کسی خاص کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں، وہ مخلوق عین درمیان میں انہیں اس کام سے روک دیتی ہے۔ دس سال سے اس مخلوق کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہوتے اب وہ اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بعض اوقات اس ماورائی مخلوق سے خود بھی اچھی خاصی جنگ کر لیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ خود تو اس مخلوق کو حاضر کر کے اس سے جنگ بھی کر لیتے تھے، لیکن اب تک کوئی عامل اس مخلوق کو حاضر کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ مخلوق بعض اوقات ان سے انتہائی دوستانہ ماحول میں بھی بات چیت کرتی ہے اور اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ ان کی دوست ہو۔ حکیم صاحب کا کہنا تھا کہ دراصل انہیں بھی اندرون خانہ ماضی میں کیے گئے جرائم ستا رہے تھے اور ان کا ضمیر ان کے سامنے کسی انجانی مخلوق کی طرح ابھر کر آرہا تھا۔ حکیم صاحب کا کہنا تھا کہ لوگوں پر کیے گئے ظلم اور ان کا گناہ ایک الگ بات ہے اور اس بیماری کا وجود ایک الگ بات۔ حقیقت میں اس بیماری کی وجہ ان لوگوں پر ظلم ، شریک حیات کی جانب سے نظر انداز کیا جانا یا اپنے اندر پائی جانے والی کوئی کمی ہی ہے۔ لیکن اس بیماری کا علاج بہرحال ممکن ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ یہ ایک الگ بیماری ہے جو ان تین وجوہات کی بنا پر کسی بھی مریض میں در آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بیماری کا علاج کرنے پر مریض فوری طور پر اس سے چھٹکارا تو حاصل کر لے گا، لیکن اصل جڑ کو ختم نہ کرنے کی صورت میں یہ چند ہفتوں بعد دوبارہ لوٹ آئے گی۔ اس بات کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جب انسان کسی اندرونی بیماری، شریک حیات کی توجہ کی محرومی کا شکار ہوتا ہے یا کسی پر ظلم کرتا ہے تو اس کے ضمیر کی جانب سے اس کے ذہن پر مسلسل کچوکے لگائے جانے کا عمل بھی ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ ضمیر کی جانب سے ذہن پر لگائے جانے والے کچوکوں کی وجہ سے ایک پیٹ سے ایک خاص قسم کے بخارات اٹھتے ہیں جو براہ راست دماغ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
ان اثرات کی وجہ سے انسان اس نفسیاتی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے جس میں وہ خود کو کسی انجانی مخلوق کے ظلم کا شکار سمجھنے لگتا ہے۔ علاج کے ذریعے ان بخارات کو فوری طور پر دماغ سے زائل کرنا تو ممکن ہے، لیکن ان کا منبع ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے منبع کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مظلوم سے معافی مانگی جائے۔ اندرونی کمی یا بیماری کا علاج کرایا جائے یا شریک حیات کی بھرپور توجہ حاصل کی جائے۔ اگر دماغ پر پائے جانے والے اثرات کا علاج کرانے کے بجائے براہ راست ان بیماریوں کا علاج کرا لیا جائے، جو اس نفسیاتی بیماری کا سبب بن رہے ہوتے ہیں تو کچھ ہی دنوں میں یہ نفسیاتی بیماری بھی خود ہی ختم ہو جاتی ہے۔