محمد نعمان اشرف :
شہر میں بلدیاتی الیکشن کا اعلان ہوتے ہی سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم تیز کردی ہے۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اپنا، اپنا میئر لانے کے لیے سرگرم ہیں۔ میئر کراچی کے لیے جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمان، جبکہ پیپلز پارٹی نے سعید غنی اور مرتضیٰ وہاب کا نام فائنل کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی گلی محلوں میں انتخابی مہم تیز کر دی ہے۔ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ نے گزشتہ روز ایک بار پھر بلدیاتی الیکشن کے بائیکاٹ کی راگنی الاپنی شروع کر دی ہے۔ ادھر سیاسی ذرائع، تجزیہ کاروں کی رائے اور ’’امت‘‘ کے اپنے سروے سے واضح ہوتا ہے کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اصل معرکہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے مابین ہوگا۔
یاد رہے کہ کراچی میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا اعلان 24 جولائی کو کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 28 اگست اور پھر 23 اکتوبر کو بلدیاتی الیکشن کروانے کا اعلان کیا گیا۔ تاہم مختلف وجوہات کے باعث بلدیاتی الیکشن بار بار موخر ہوتے رہے۔ اب شہر میں 15 جنوری کو بلدیاتی الیکشن کروانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس کے بعد سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
’’امت‘‘ سروے کے مطابق کراچی کے شہریوں نے آنے والے بلدیاتی سیٹ اپ سے بہت سے امیدیں باندھ لی ہیں۔ سروے کے دوران کراچی کے مختلف علاقو ں میں شہریوں نے بنیادی سہولیات فراہم نہ ہونے پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پر برہمی کا اظہار کیا۔ سروے میں بیشتر شہریوں کی رائے ہے کہ وہ اس بار حافظ نعیم الرحمان کو میئر کراچی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گلی محلوں کے مسائل پر جماعت اسلامی نے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے۔ اگر حافظ نعیم الرحمان میئر بن جاتے ہیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ جبکہ شہر میں ایک بڑا مسئلہ بلدیاتی ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کا بھی ہے۔ جو پیپلز پارٹی نے کافی حد تک حل کر دیا ہے۔ جس کی بدولت پیپلز پارٹی نے، کے ایم سی بلڈنگ اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن دفاتر میں اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔
گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی سے 208 نشستوں میں سے 136 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ جس کے بعد وہ بغیر کسی اتحاد کے اپنا میئر اور ڈپٹی میئر لانے میں کامیاب رہی تھی۔ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی دوسرے، مسلم لیگ ’ن‘ تیسرے اور جماعت اسلامی چوتھے نمبر پر رہی تھی۔ حاصل کردہ معلومات کے مطابق کراچی میں 26 ٹاؤنز، 233 یونین کمیٹیز ہوں گی۔ ضلع کورنگی میں 37 یونین کمیٹیز، 5 ٹاؤنز بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح ضلع جنوبی میں 2 ٹاؤنز، 26 یونین کمیٹیز ہوں گی۔ ضلع غربی میں 3 ٹاؤنز بنائے گئے ہیں۔ ضلع ملیر 30 یونین کمیٹیز اور تین ٹائون، گڈاپ، ابراہیم حیدری، اور ملیر ٹاؤن پر مشتمل ہے۔
ضلع کیماڑی میں 3 ٹائونز اور ضلع شرقی میں سعید غنی کے حلقہ چنیسر گوٹھ کو بھی ٹائون بنا دیا گیا ہے۔ جس کے بعد ضلع شرقی بھی 5 ٹائونز پر مشتمل کردیا گیا ہے۔ شہر بھر کے ٹائونز میں اضافے کے بعد 38 نشستوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کراچی میں ووٹرز کی تعداد 84 لاکھ 5 ہزار 475 ہے۔ جن کے لیے تقریبا 5 ہزار پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔ جن میں سے تمام پولنگ اسٹیشنز حساس اور انتہائی حساس ہیں۔ ضلع وسطی 5 ٹائون اور 45 یونین کمیٹیوں کے ساتھ سب سے بڑا ضلع ہے۔ جہاں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 20 لاکھ 76 ہزار 73 ہے۔
کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں ایک بھی پولنگ اسٹیشن کو نارمل قرار نہیں دیا گیا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے ضلع ملیر، جنوبی اور غربی میں اپنی پوزیشن مضبوط بنائے رکھی تھی۔ تاہم رواں سال کے بلدیاتی الیکشن میں پیپلز پارٹی نے ضلع وسطی، کورنگی اور کیماڑی میں بھی اپنی پوزیشن مضبوط کرلی ہے۔ گزشتہ الیکشن میں جماعت اسلامی نے ضلع شرقی اور غربی میں اپنی پوزیشن بہتر رکھی ہوئی تھی۔ تاہم اس مرتبہ جماعت اسلامی کی شہر بھر میں پوزیشن مضبوط نظر آ رہی ہے۔
گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے ضلع ملیر اور دیگر سیٹوں پر اتحاد کیا تھا۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی میں اپوزیشن لیڈر بھی جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے مقرر کیے گئے تھے۔ تاہم اس الیکشن میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کسی اتحاد کا حصہ نہیں بننا چاہتی ہیں۔ 126 سے زائد سیٹیں جیتنی والی جماعت ہی میئر کراچی لانے میں کامیاب ہوگی۔ شہر کے مختلف علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن بھی بظاہر مضبوط نظر آرہی ہے۔ گارڈن، رنچھوڑ لائن، کھارادر، میٹھادر، صدر اور دیگر علاقوں میں ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔ تاہم رواں الیکشن میں تحریک انصاف نے ان علاقوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کرلی ہے۔ شہر میں بلدیاتی الیکشن میں وارڈز کے لیے 8 ہزار سے زائد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ وارڈز کے امیدواروں میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان کڑا مقابلہ متوقع ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کے ایم سی افسران کو سخت ہدایت جاری کیں اور بعض میڈیا خبروں پر مرتضیٰ وہاب نے فوری کارروائیاں کی تھیں۔ جس کے بعد شہر میں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے دفاتر میں بھی نظام بہتر ہونا شروع ہوگیا تھا۔ مرتضیٰ وہاب نے گھوسٹ ملازمین کی فہرست طلب کرکے ان کے خلاف کارروائیاں کیں۔ کے ایم سی بلڈنگ میں مرتضیٰ وہاب کے آنے کے بعد پیپلز پارٹی مزید فعال ہوئی اور کے ایم سی بلڈنگ میں پیپلز پارٹی کے کارکنان کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا۔
مرتضیٰ وہاب نے ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے دفاتر کے بھی دورے کیے اور ان کا نظا م بہتر بنانے کے لیے ڈپٹی کمشنرز، ایڈمنسٹریٹر و افسران کو ہدایت جاری کیں۔ مرتضیٰ وہاب کی تعیناتی کے بعد بلدیاتی افسران نے کام میں تیزی دکھائی۔ پیپلز پارٹی نے میئر کراچی کے لیے تین ناموں پر غور کیا ہے۔ مرتضیٰ وہاب، سعید غنی اور نجمی عالم۔ تاہم سرفہرست نام مرتضیٰ وہاب کا ہے۔ ادھر جماعت اسلامی نے شہر کے مسائل ہر فورم پر اٹھائے ہیں۔
جماعت اسلامی نے سوشل میڈیا کی مدد سے اور احتجاجی دھرنوں کے ذریعے کراچی کے مسائل پر آواز اٹھائی۔ سوشل میڈیا پر حافظ نعیم الرحمان ٹاپ ٹرینڈ پر نظر آئے۔ گزشتہ دنوں نجی تعلیمی اداروں میں ایک سروے کیا گیا۔ جس میں 80 فیصد طلبا و طالبات نے اپنا ووٹ حافظ نعیم کو دینے کا کہا۔ سروے رپورٹس کے مطابق اس وقت شہر میں حافظ نعیم کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ تحریک لبیک اور مسلم لیگ ’ن‘ نے بھی بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں کرلی ہیں۔ محمود آباد، ناتھا خان گوٹھ اور دیگر علاقوں میں مسلم لیگ ’ن‘ کی پوزیشن بہتر ہے۔ جبکہ ضلع غربی، جنوبی اور وسطی میں تحریک لبیک پاکستان بھی میدان میں اتری ہوئی ہے۔
مذکورہ اضلاع میں تحریک لبیک پاکستان نے بھرپور الیکشن مہم چلا رکھی ہے۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ بلدیاتی الیکشن سے فرار ہونے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے تینوں دھڑے ایک ہونے پر کارکنان شدید مایوس نظر آرہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پاک سرزمین پارٹی کے اہم ذمہ دار جنید قریشی، شیراز قریشی، سلیم الدین، ظہیر قریشی، توصیف احمد، زبیر ملک، سہیل اور دیگر کارکنان کو اہم ذمہ داریاں دی گئی تھیں۔ بلدیاتی الیکشن سے قبل مذکورہ ذمہ داران نے ڈسٹرکٹ سینٹرل خصوصاً لیاقت آباد سپر مارکیٹ، ڈاکخانہ،10 نمبر اور دیگر علاقوں میں پارٹی کی گرفت مضبوط کرلی تھی۔ تاہم بلدیاتی الیکشن بار بار ملتوی ہونے کے باوجود سینٹرل میں متحدہ اپنی گرفت مضبوط کرنے میں ناکام نظر آئی۔
گزشتہ دنوں سیاسی ہلچل میں تیزی کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی نے ایک پلیٹ فارم پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مذکورہ اعلان سے قبل ہی ڈسٹرکٹ سینٹرل میں متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان کو فعال کر دیا گیا تھا۔ متحدہ کارکنان نے پاک سر زمین کے الیکشن آفس پر کنٹرول کرکے پاک سر زمین پارٹی کارکنان کو ہدایت جاری کرنا شروع کردی تھیں۔ اس حوالے سے پی ایس پی کی اعلیٰ قیادت کو شکایت بھی درج کروائی کہ متحدہ کارکنان ہمیں ہدایت جاری کر رہے ہیں اور یہ وہ کارکنان ہیں جو ماضی میں علاقہ مکینوں کے لیے اذیت کا باعث بنے رہے ہیں۔ تاہم پی ایس پی کی اعلیٰ قیادت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ جس کے باعث پاک سر زمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے تمام کارکنان نے لاتعلقی کرلی ہے۔ اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان نے بھی پاک سر زمین پارٹی سے ہاتھ ملانے پر پارٹی قیادت سے معذرت کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس صورتحال کا پیپلز پارٹی نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاک سر زمین پارٹی کے ناراض کارکنان و ذمہ دران سے رابطہ کرکے انہیں شمولیت کی دعوت دے دی ہے۔ بعض ذمہ دران نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے پارٹی کے لیے کام کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ دنوں ضلع سینٹرل میں ملازمین کے واجبات کے حوالے سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ جس میں پی پی رہنما ڈاکٹر عاصم کو مہمان خصوصی بنایا گیا۔ تاہم ڈاکٹر عاصم نے اپنی تقریر میں متحدہ قومی موومنٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ساتھ ہی تقریر کے دوران یہ بھی ذکر کیا گیا کہ ملازمین کے حق کے لئے پیپلز پارٹی کھڑی رہی ہے اور آج بھی پیپلز پارٹی کی جدوجہد سے ہی واجبات ادائیگی کا سلسلہ جاری ہے۔ مذکورہ تقریب کے بعد متحدہ کے بھرتی کردہ متعدد کارکنان نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈسٹرکٹ سینٹرل میں اہم عہدوں پر تعینات بلدیاتی افسران نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔
15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں 246 یوسیز کے الیکشن کے لیے چیئرمین کی نشست پر 3553، وائس چیئرمین کیلیے 3553 اور وارڈز کے لیے 9965 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ جبکہ شہر میں ایک بار پھر بلدیاتی الیکشن ملتوی ہونے کی افوائیں گردش کر رہی ہیں۔ لیکن الیکشن کسی بھی وقت ہوں۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی نے اپنا ووٹ بینک مضبوط کرلیا ہے۔