عمران خان :
نیب ترامیم کے بعد کئی اہم ریفرنسز، نیب سے ایف آئی اے اور کئی اہم انکوائریاں ایف آئی اے سے نیب کو منتقل کی جا رہی ہیں۔ ان کیسوں اور انکوائریوں پر ان منتقلیوں کے اثرات آئندہ آنے والے مہینوں میں سامنے آئیں گے، جن کی بنیاد پر نئے سیاسی سیٹ اپ میں ان کرداروں کی اہمیت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔
’’امت‘‘ کو موصولی اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں ایک اہم پیشرفت میں ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں موجودہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری، اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور غنی مجید کے خلاف 5 برس سے جاری انکوائریاں قومی احتساب بیورو (نیب) منتقل کردی گئیں۔ 2018ء سے جاری انکوائریوں کو ایف آئی اے میں مبینہ طور پر سرد خانے کی نذر رکھا گیا تھا۔
ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں 2018ء سے جاری انکوائری نمبر 18/2018،77/2018 اور 78/2018 کو قومی احتساب بیورو (نیب) کراچی کے حوالے کردیا گیا۔ جبکہ اومنی گروپ اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں سے متعلق منی لانڈرنگ اور بے نامی بینک اکائونٹس کے نیب میں موجود 15 کے قریب ریفرنسز ایف آئی اے کو واپس بھجوانے کی تیاریاں بھی شروع کردی گئی ہیں۔
دستیاب معلومات کے مطابق ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی میں انکوائری نمبر18/2018 میں درخواست گزار میسرز ایکشن ٹاپ انٹرنیشنل دبئی کے سربراہ حنیف مرچنٹ نے ٹیسوری جیولرز کے سربراہ کامران ٹیسوری پر الزام عائد کیا کہ 3 لاکھ99 ہزار 429 تولہ سونا کی برآمد میں ایس آر او 266(i)2001 کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
اس تحقیقات میں ایف آئی اے نے کامران ٹیسوری کے بینک اکائونٹس اور ان کی جائیداد کی تفصیلات بھی طلب کی تھیں اور درخواست گزار نے اس تحقیقات میں کامران ٹیسوری کے خلاف متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے شہر دبئی میں درج مقدمے کی تفصیلات سمیت انٹر پول کے نوٹس کی کاپی بھی منسلک کی تھی۔ جب کہ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ کامران ٹیسوری نے دبئی سے سونا درآمد کیا، تاہم انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق سونے کے زیورات برآمد نہیں کئے تھے۔ اسی میں یہ الزامات بھی عائد کئے گئے کہ کامران ٹیسوری نے جی ایم اینڈ جیولری انڈسٹریل پارک میں کامران ٹیسوری کے بھائی عرفان نے 68 ایکڑ زمین اپنے نام کی تھی، جس کے لیے انہوں نے 17 کروڑ روپے ادا کئے تھے۔
اس درخواست پر درج کی گئی انکوائری میں بعد ازاں ایف آئی اے نے کامران ٹیسوری کے بینک اکاؤنٹس اور ان کی جائیداد کی تفصیلات بھی طلب کی تھی اور ساتھ ہی ایف آئی اے کی جانب سے کامران ٹیسوری کے خلاف نیب میں موجود مقدمات کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا گیا تھا۔ تاہم بعد ازاں غیر محسوس انداز میں اس پر پیش رفت کے بجائے تحقیقات کے عمل کو روک دیا گیا۔ اس معاملے میں دو برس بعد یعنی 2020ء کی ابتدا میں اس وقت کچھ پیش رفت سامنے آئی تھی جب انٹر پول نے ایف آئی اے سے رابطہ کرکے کامران ٹیسوری کیس کو سنجیدہ لینے کی درخواست کی تھی۔ جس پر ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کے افسران نے ان کے خلاف سونا اسکینڈل کے ساتھ ساتھ سرکاری زمینوں پر قبضے کی تحقیقات شروع کر دی تھیں۔ کامران ٹیسوری کے سرکاری اراضی پر قبضے کی تحقیقات کا آغاز گیلانی ریلوے اسٹیشن پر 12 ایکڑ اراضی سندھ ریونیو بورڈ کی مدد سے غیر قانونی طریقے سے اپنی اہلیہ کے نام منتقل کرنے پر کیا گیا۔ جس سے متعلق شواہد اکھٹے کیے جا رہے تھے تاہم اس معاملے کو بھی بعد ازاں آہستہ آہستہ سست رفتاری سے دبا دیا گیا تھا ۔
دوسری جانب ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل میں نومبر 2018ء میں رجسٹرڈ ہونے والی دو انکوائریوں 77/2018اور78/2018 میں اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید، عبدالغنی مجید، خواجہ مصطفی سمیت دیگر پر اختیارات کا ناجائز استعمال اور جعل سازی سے نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این) کے استعمال کا الزام ہے۔ تاہم ان دونوں انکوائریوں میں ایف آئی اے کے تفتیشی افسران نے ریکارڈ اکٹھا کرنے میں بھی سست روی کا مظاہرہ کیا اور انکوائری کو سرد خانے کی نذر رکھا گیا اور حالیہ دنوں میں یہ دونوں انکوائریاں نیب کراچی کو منتقل کردی گئی ہیں۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول کسی دوسرے شخص کے شناختی کوائف پر این ٹی این (نیشنل ٹیکس نمبر ) حاصل کرکے استعمال کرنا ایک سنگین جرم ہے جس میں ایف بی آر کے آٹو میشن کے پرال کی نااہلی اور غفلت بھی شامل ہے اس پر فوجداری ایکٹ کے تحت ایف آئی اے میں ہی اصل کارروائی ممکن ہے۔ جبکہ نئی ترامیم کے بعد مالیاتی جرائم کی تحقیقات کے لئے نیب کے پاس دائرہ اختیار سمٹ کر بہت مختصر رہ گیا ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول نیب ترامیم کے بعد کئی اہم ریفرنس نیب سے ایف آئی اے کو منتقل کی جا رہی ہیں جن میں اومنی گروپ اور ملک کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنمائوں سے متعلق بے نامی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے ریفرنس شامل ہیں۔
اس وقت تاریخ میں پہلی بار ایف آئی اے کے کراچی زون میں ایک مخصوص صوبائی سسٹم کے اثرات بڑھ گئے ہیں۔ اسی سسٹم کے کرداروں نے اپنے حوالے سے انکوائریوں اور ریفرنسز کو ان جگہوں پر بھجوانا شروع کردیا ہے، جہاں ان پر زیادہ آسانی سے اثر انداز ہوا جاسکے۔ گزشتہ مہینوں میں اسی سسٹم کے تحت ایف آئی اے کراچی زون کے ہیڈ آفس اور سرکلوں میں انچارجز کی تعیناتیاں کی جا رہی ہیں۔ جبکہ ماضی میں ان کرداروں کے خلاف انکوائریوں اور مقدمات کی تفتیش سے جڑے رہنے والے ایف آئی اے افسران کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔