اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ میں دوریوں کے باعث پہلے مرحلے میں اتفاق رائے کے امکانات معدوم ہیں۔فائل فوٹو
اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ میں دوریوں کے باعث پہلے مرحلے میں اتفاق رائے کے امکانات معدوم ہیں۔فائل فوٹو

’’خیبر پختون کی سرکاری رہائش گاہیں خالی ہونے لگیں‘‘

محمد قاسم :
پنجاب کے بعد خیبر پختون اسمبلی کی ممکنہ تحلیل کے پیش نظر صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کر دیا ہے اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل سے قبل سرکاری رہائش گاہوں کے مکین آہستہ آہستہ کوچ کرنے لگے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن نے اسمبلی توڑنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے کا فیصلہ کرلیا۔ تاہم نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جانے کا بھی امکان ظاہر کیا جانے لگا ہے۔

ذرائع کے مطابق خیبرپختون اسمبلی کی ممکنہ تحلیل کے باعث کئی وزرا اور ارکان اسمبلی نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کر دیا ہے جبکہ سرکاری رہائش گاہوں کو خالی کرنے کے اب صرف حکم کا انتظار ہے۔ ذرائع کے مطابق ایم پی اے ہاسٹل میں مقیم ارکان اسمبلی نے اپنے اپنے کمروں سے سامان اکھٹا کرکے اپنے گھروں کو منتقل کر دیا ہے جبکہ وزرا کو دیئے گئے بنگلوں سے بھی سامان کی منتقلی شروع کر دی گئی ہے۔ تاہم چند وزرا تا حال انہی رہائش گاہوں میں موجود ہیں اور چند نے اپنا سامان منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ارکان کابینہ انہی گھروں میں مقیم ہیں اور اپنا بیشتر سامان منتقل کر دیا ہے اور ضروری استعمال کا ہی سامان باقی ہے۔ اور جیسے ہی اسمبلی کی تحلیل کی سمری ارسال کی جائے گی تو وہ باقی سامان بھی لے جائیں گے۔ جبکہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ وہ اسمبلی تحلیل کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔ حکومت اپنا شوق پورا کر لے وہ انتخابات کیلیے بھی پوری طرح تیار ہیں۔

اس حوالے سے خیبرپختون اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک کا کہنا ہے کہ، انتشار کی سیاست کرنے والے شوق سے اسمبلی تحلیل کر یں۔ انتخابات میں تحریک انصاف کا صفایا کر دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ انتخابات کیلئے تیار ہیں اسی لئے اسمبلی تحلیل کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کریں گے۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی نگہت اورکزئی نے بتایا کہ، اسمبلی کی تحلیل سے تحریک انصاف نامی انتشار صاف ہو جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) کے صوبائی ترجمان اور رکن صوبائی اسمبلی اختیا ر ولی نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ محمود خان اسمبلی تحلیل کریں، وہ انتخابات سے قبل احتساب کے نعرے کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔ جبکہ دوسری جانب خیبر پختون اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں نگران وزیر اعلیٰ کے تقررکیلیے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو ایک نئے معرکہ کا سامنا ہوگا۔

گذشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی اورجے یو آئی کے درمیان نگران وزیر اعلیٰ کے نام پر اتفاق رائے نہیںہوسکا تھا اور وزیر اعلیٰ کی نامزدگی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کی گئی تھی۔ جبکہ موجودہ وقت میں بھی جے یو آئی اور پی ٹی آئی اسمبلی میں آمنے سامنے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی انتہائی سخت حریف جماعتیں ہیں۔ جبکہ اسمبلی تحلیل کی صورت میں وزیراعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم درانی کو نگران وزیر اعلیٰ کیلیے مجوزہ تین ناموں میں سے کسی ایک امیدوار کے نام پر آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق تین دنوں میں اتفاق کرنا ہوگا۔

عدم اتفاق کی صورت میں اسپیکرصوبائی اسمبلی اپوزیشن اور حکومتی ممبران پر مشتمل 6 رکنی کمیٹی تشکیل دیں گے۔ یہ کمیٹی تین روز میں ناموں پر غور کرے گی اور نامزدگی کی جائے گی۔ تاہم کمیٹی میں مسئلہ حل نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس چلاجائے گا اور موجودہ وقت میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدہ سیاسی اختلافات کی وجہ سے یہ مسئلہ ماضی قریب کی طرح ایک مرتبہ پھر متنازع ہونے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ جون2018ء میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور اپوزیشن لیڈر لطف الرحمن کے درمیان اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے تشکیل دی گئی چھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کی گئی تھی۔ اس کمیٹی میں پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ فرمان، عاطف خان اور موجودہ وزیراعلیٰ محمود خان کو نامزدکیا گیا تھا۔ جبکہ اپوزیشن کی نمائندگی کیلیے کمیٹی میں جے یو آئی کے نور سلیم خان، محمود خان بیٹنی اور مفتی فضل غفور شامل تھے۔ لیکن کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچی تھی۔

اس وقت اپوزیشن کی جانب سے پشاور زلمی کرکٹ ٹیم کے مالک جاویدآفریدی کے کزن منظور آفریدی اور جسٹس دوست محمدخان کے نام پیش کیے گئے تھے۔ جبکہ پرویزخٹک کی جانب سے سابق وفاقی سیکریٹری حمایت اللہ خان اور سابق چیف سیکریٹری اعجاز احمد قریشی کو نامزد کیا گیا تھا۔ کیونکہ دونوں فریق اپنے نامزد کردہ امیدواروں پر قائم رہے تھے اس لیے18 ویں آئینی ترمیم کے تحت نگران وزیراعلیٰ کے نام الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ارسال کیے گئے تھے۔جہاں سے دوست محمد خان کو نگران وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا تھا۔