تحریک انصاف کی دستاویز پرعدالت نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری نہیں کیا،فائل فوٹو
تحریک انصاف کی دستاویز پرعدالت نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری نہیں کیا،فائل فوٹو

پنجاب اسمبلی کے انتخابات جلد ہونے کے امکانات نہیں

نواز طاہر :
پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے معاملات عدالت عالیہ سے انتظامیہ کی کورٹ میں داخل ہونے کے بعد پھر سے عدلیہ ہی میں آگئے ہیں۔ جبکہ سیاسی سطح پر بھی تحریکِ انصاف نے آئین بچائو تحریک کے تحت وکلا کو متحرک کردیا ہے۔ جس کیلئے وکلا تنظیموں اور بار ایسوسی ایشنز کی ’خدمات‘ حکومت پر دبائو بڑھانے کیلئے بروئے کار لائی جائیں گی۔

واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد نئے الیکشن کی تاریخ مقرر نہیں کی گئی اور یہ تاریخ مقرر کرنے کیلئے تحریکِ انصاف نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ جس پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ فوری طور پر گورنر سے مشاورت کرکے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرے۔

عدالت کے اس فیصلے کے بعد پیر کو الیکشن کمیشن نے مشاورت کیلئے گورنر کو مراسلہ لکھا۔ تاہم مشاورت نتیجہ خیز نہ ہونے پر گورنر کی طرف سے اس معاملے میں وضاحت کیلئے عدلیہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور وکلا کو اس ضمن میں ہدایت بھی جاری کردی گئی تھی۔

سرکاری طور پر بھی بتایا گیا کہ گورنر کی زیر صدارت اجلاس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن، ڈی جی لا الیکشن کمیشن، آئی جی، چیف سیکریٹری اور دیگر متعلقہ حکام شریک ہوئے۔ جس میں شرکا نے اپنی اپنی آئینی اور قانونی تجاویز دیں اور عدالتی فیصلے کی روشنی میں انتخابات کرانے کے حوالے سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچا جا سکا اور اس پر اتفاق کیا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عدالت سے رہنمائی کیلئے فیصلے کی وضاحت حاصل کی جائے ۔ تاکہ اس پر عملدرآمد کیا جاسکے۔

اس سے پہلے کہ الیکشن کمیشن یا گورنر کی طرف سے عدلیہ سے رجوع کیا جاتا۔ اسی دوران گورنر کیخلاف ایک توہینِ عدالت کی درخواست دائر کردی گئی۔ جبکہ دوسری جانب صدرِ مملکت سے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کروانے کی استدعا پر مبنی درخواست دائر کی گئی۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت نے صدرِ مملکت سے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ کے اعلان کیلئے کردار ادا کرنے کیلئے کہا تھا۔ لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا تھا۔ اس ضمن میں ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر علوی نے ایسا کرنے سے’ فی الحال‘ معذرت کی تھی اور یہ معذرت بھی پارٹی قیادت کو ناراض نہ کرنے جیسے انداز میں کی گئی۔

صدر علوی سے ہونے والی گفتگو کے بعد عدالتِ عالیہ میں درخواست دائر کی گئی کہ عدالت صدر کو الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کیلئے ہدایت دے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدرِ مملکت ہر ممکنہ حد تک ایوانِ صدر کو ’پارٹی آفس‘ کے طور پر استعمال ہونے کے تصور سے بچانے کیلئے کوشاں ہیں۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت نے ایک جانب انتخابی حکمتِ عملی جاری رکھی ہوئی ہے اور ٹکٹوں کی تقسیم جیسے عمل پر کام جاری ہے۔ تو دوسری طرف اس کا خیال ہے کہ ان کی منشاء کے مطابق الیکشن کی تاریخ کے اعلان میں مزید تاخیر ہوسکتی ہے۔ اس لئے ضروری سمجھا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے وکلا کی تنظیموں کو متحرک کیا جائے۔ جو عدلیہ سمیت آئینی اداروں پر دبائو کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم بھی ہوگی اور اس میں گورنر کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو آئین کا منحرف قرار دیکر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے الزام میں سزا کا مطالبہ کیا جائے گا۔

اس مہم میں سول سوسائٹی اور یوتھ کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور موسمی حالات کو بھی اس حوالے سے انتہائی سازگار قرادیا جارہا ہے۔ ذرائع کے بقول پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان لاہور کے لبرٹی چوک اور ڈیفنس کے کچھ کارنر کو غیر متحرک دیکھتے ہوئے انہیں پھر سے پارٹی کی سرگرمیوں میں متحرک دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو قابلِ گرفت قرار دیدیا ہے۔

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا ہے۔ ہم اپنے آئین کے دفاع کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن وکیل رہنما اور آئینی ماہر سہیل ڈار کا کہنا ہے کہ مشاورتی عمل میں اگر کسی مرحلے پر آئینی معاملے پر عملدرآمد میں بظاہر تاخیر ہو رہی ہو تو یہ پروسیجرل تاخیر ہو سکتی ہے۔ یہ آئین سے انحراف یا اسے آئین توڑنا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر اس پروسیجرل یا مشاورتی عمل کو آئین کی خلاف ورزی یا آئین توڑنا قرار دیدیا تو اس سے پھر ہر جانب آئین کے غداروں کے مقدمات کی ہی بھیڑ لگ جائے گی۔ سہیل ڈار کہتے ہیں کہ اس وقت گورنر اور الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے حوالے سے عدالتی احکامات کی تعمیل میں جو مشاورت کی ہے۔ وہ عدالتی فیصلے پرعملدرآمد کا ہی حصہ ہے۔