احمد خلیل جازم :
پاکستان میں گزشتہ ایک عشرے سے بچوں کو تسلسل سے زیادتی کا نشانہ بنانے کی وارداتوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر پنجاب بچوں سے زیادتی کا گڑھ بن چکا ہے۔ گزشتہ دنوں چھ سالہ بچی سے زیادتی کے ملزم فرقان کو دینہ جہلم سے گرفتار کرلیا گیا۔ بچی ملزم کی دادی کے پاس سپارہ پڑھنے گئی تھی کہ اس نے بچی سے زیادتی کر ڈالی۔
دوسری جانب گزشتہ ہفتے حافظ آباد میں ایک ہی گھر سے دو بچے اغوا کرلیے گئے اور دوسرے کیس میں حافظ آباد میں ایک بچی سے زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ جبکہ گزشتہ ہفتے کراچی سے آٹھ سالہ بچی سے زیادتی کرنے کے بعد قتل کرنے والے ایک شخص عبدالرحمان کو خیبرپختون سے گرفتار کرلیا گیا۔ ساہیوال سے آٹھ سالہ بچے سے اجتماعی زیادتی کا واقعہ بھی گزشتہ ہفتے پیش آیا۔ لاتعداد ایسے واقعات ہیں جو چند ہفتوں میں پیش آئے۔ بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے تشویش ناک رحجان سے جہاں والدین خوفزدہ ہیں۔ وہیں ناقص تفتیش کے باعث ان ملزمان کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر رہائی مل جاتی ہے۔
بچوں کے حقوق کے حوالے سے ایک تنظیم ساحل نے دو ہزار بائیس کی پہلی ششماہی رپورٹ میں بتایا ہے کہ، اس ششماہی میں 1,207 بچیاں اور 1,004 بچے استحصال کا شکار ہوئے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق زیادتی کے شکار بچوں کی تعداد روزانہ 12 سے زائد ہے۔ گزشتہ برس اس ششماہی میں رپورٹ ہونے والے واقعات میں اغوا کے 803، عصمت دری کے 243، زیادتی کے 298، اجتماعی عصمت دری کے 41 اور لڑکوں سے گینگ ریپ کے 87 کیس درج ہوئے تھے۔
زیادتی کے بعد 17 لڑکوں اور 13 لڑکیوں کو قتل کیا گیا۔ اس سے بھی خوفناک بات یہ ہے کہ ان میں میں 2 لڑکوں اور ایک لڑکی کو اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا اور 212 بچے لاپتا ہوئے۔ ان اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کل 2,211 میں سے 1,050 ایسے کیسز ہیں جہاں زیادتی کرنے والوں کی ان متاثرہ بچوں یا ان کے خاندان سے جان پہچان تھی۔ جب کہ 409 ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں اجنبی لوگ بدسلوکی میں ملوث ہیں۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب بڑے صوبے پنجاب میں صرف 2020ء میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ ریپ کے تقریباً 1337 سے زائد کیس رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ شدہ کیسز کے مطابق صوبے میں بچوں کے ساتھ بد فعلی کے تقریباً 900 مبینہ واقعات ہوئے اور 400 سے زائد بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اعداد و شمار کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے۔
جنوری 2018ء میں قصور میں زینب کے ریپ اور قتل کے بعد ملک بھر میں پائے جانے والے عوامی غم و غصے کے بعد شاید پہلی بار اس مسئلے پر کھل کر بات کی گئی۔ اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قانون سازی کے ساتھ دیگر اقدامات اٹھائے جائیں۔ جس کے بعد ’’زینب الرٹ بل‘‘ کی تیاری شروع کر دی گئی۔
حکومت نے ’’زینب الرٹ بل‘‘ بھی پاس کیا اور اس کے لیے ایک ایپ بھی متعارف کرارکھی ہے۔ اس ایپ پر جیسے ہی شکایت درج کرائی جائے گی کہ کسی کی بچی اغوا ہوئی ہے یا اس زیادتی ہوئی ہے، تو اس کے ذریعے اس کی اطلاع پورے پاکستان کے چپے چپے میں پہنچ جاتی ہے۔ تھانے اور پولیس کی سستی کا کوئی امکان نہیں۔ یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کس نے شکایت درج کرائی اور کہاں کرائی گئی؟ فوری طور پر اس پر عمل درآمد شروع ہونے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں؟ آپ نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی خبر نہیں سنی ہوگی۔ یعنی یہاں ایسی ایپ کے نفاذ کے لیے بھی بنیادی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے جو عوام میں موجود نہیں ہے۔
ساحل آرگنائزیشن کے مطابق، 2021ء میں پاکستان کے چاروں صوبوں سے بچوں سے زیادتی کے کل 3852 کیسز رپورٹ ہوئے۔ بشمول اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ کل 3852 کیسز میں بچوں کے جنسی استحصال، اغوا کے کیسز، گمشدہ بچوں کے کیسز اور بچوں کی شادیوں کے کیسز شامل ہیں۔ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ سال 2021ء کے دوران روزانہ 10 سے زیادہ بچے زیادتی کا شکار ہوئے ہیں۔ دو ہزار بائیس میں بھی اس شرح میں اضافے کے بجائے زیادتی دیکھنے کو ملی۔ بچوں کے اغوا، ان سے زیادتی یا مارپیٹ کے متعدد واقعات آپ روزانہ ٹی وی سکرینوں پر دیکھتے آرہے ہیں اور نہ جانے یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔
اس حوالے ماہرین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ، والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے طور پراقدامات کریں۔ اپنے بچوں سے بالکل بے پروا نہ رہیں۔ ان کے روزانہ کے معمولات چیک کریں۔ کیا آپ کے بچوںکے رویے میں حالیہ دنوں میں کوئی خاص تبدیلی تو واقع نہیں ہوئی۔ کیا وہ بات بات پر چونک اٹھتے ہیں یا پھر ان کی بھوک کم ہوگئی ہے۔ کسی خاص جگہ جانے سے خوفزدہ ہونا یا پھر بلاوجہ چڑچڑا ہونا یا پھر وہ بلاوجہ اداس ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں سے کھل کر بات کریں، انہیں اعتماد لیں اور اس بات کو باور کرائیں کہ وہ ان کے دوست ہیں۔ ان کے ہر مسئلے کا حل ان کے پاس موجود ہے۔ ان پرکوئی سختی نہیں ہوگی بلکہ ان کا مسئلہ حل کیا جائے گا۔ خدانخواستہ بچے کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو فوری طور پر پولیس سے رجوع کریں۔ اگر کوئی بچے کو تنگ کررہا ہے، کسی کے پاس اس کی کوئی اخلاق باختہ ویڈیو ہے تو فوری طور پر سائبر کرائم سے رابطہ کریں۔اس حوالے سے کسی قسم کا خوف یا شرمندگی محسوس نہ کریں۔