کراچی (رپورٹ : سید نبیل اختر) لاہور کے علامہ اقبال ایئر پورٹ کے پیسنجر ٹرمینل بلڈنگ کی توسیع کے ٹھیکے میں بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے ۔ 7 ارب روپے سے زائد کے ٹھیکے میں کنسلٹنسی چارجز کی مد میں بھاری ادائیگیاں اور پروجیکٹ مکمل ہونے کے باوجود بھی رقوم جاری کی جاتی رہیں ۔ منصوبے کی معاہدے کے مطابق لاگت کے برعکس 21 کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات کردیئے گئے ۔ تفصیلات کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی نے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل کے پیسنجر ٹڑمینل بلڈنگ کا ٹھیکہ میسرز اظہار کنسٹرکشن (پرائیوٹ ) لمیٹڈ کو 2017 میں دیا تھا ،مذکورہ ٹھیکے میں ہوائی اڈے کی پارکنگ کی توسیع بھی شامل تھی جس کے لیئے 22 اپریل 2017 کو کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرتے ہی 5 ارب 90 کروڑ 39 لاکھ 40 ہزار روپے کی پیشگی ادائیگی بھی کردی گئی ۔ ٹھیکے دار کمپنی نے منصوبہ 400 دنوں میں مکمل کرنا تھا جس کے لیے اسے 7 ارب 22 کروڑ 93 لاکھ اور 77 ہزار روپے کی ادائیگی کرنا تھی تاہم انتظامیہ نے آئی پی سی (عبوری ادائیگی سرٹیفکٹ ) نمبر 27 کے مطابق ٹھیکیدار کو 7 ارب 44کروڑ 58 لاکھ 79 ہزار روپے کی ادائیگی کردی ۔ سینٹرل پبلک ورکس اکاؤنٹ کا کوڈ پیرا 287اور 288 ، اسی طرح سیںٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کوڈ کا پیرا 46اور52 پابند کرتا ہے کہ ٹھیکے کی تکمیل کے ساتھ ہی اس کا کھاتہ بند کردیا جائے ،مذکورہ کھاتے کی بندش سے قبل اس کے لاگت سے متعلق ضروری اندراج مکمل کرلیئے جائیں ،مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی کہ کام کی تکمیل کے بعد جاری ہونے والے حوالگی سرٹیفکٹ ستمبر 2020 میں جاری کیا گیا اور اس میں بتایا گیا کہ منصوبے کا سو فیصد کام مکمل ہوچکا ہے ، تاہم انتظامیہ نے مذکورہ منصوبے کا کھاتہ بند نہیں کیا اور کنسلٹنسی کی مد میں بھاری اخراجات کیئے جس سے لاگت بڑھتی چلی گئی۔مذکورہ معاملے پر بے ضابطگی کی نشاندہی جولائی اور اگست 2020 میں کی گئی جس پر سی اے اے انتظامیہ نے جواب دیا کہ قانون کی ایک شق کے مطابق ٹھیکیدار ڈی ایل پی کے اجرا کے 56 روز میں حتمی اسٹیٹمنٹ جمع کراسکتا ہے ، سی اے اے انتطامیہ کا یہ جواب اس لیئے تسلی بخش نہیں تھا کیوںکہ منصوبے کی تکمیل اور حوالگی کا سرٹیفکٹ ٹھیکیدار کمپنی نے ستمبر 2020 میں جاری کیا تھا اور اس مدت کے ایک برس بعد معاملے کی نشاندہی کی جارہی تھی ،ٹھیکیدار کمپنی نے کبھی حتمی اسٹیٹمنٹ جاری کیا نا ہی سی اے اے انتظامیہ نے منصوبے کا کھاتہ بند کیا جس سے سی اے اے کو بھاری نقصان پہنچا ، مذکورہ معاملہ ڈیپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی کے اجلاس میں زیر بحث آیا جس میں سفارش کی گئی کہ ٹھیکیدار کمپنی کو پابند کیا جائے کہ وہ منصوبے سے متعلق حتمی اسٹیٹمنٹ جمع کرائے اور سی اے اے کو ہدایت کی گئی کہ وہ مذکورہ منصوبے سے متعلق اپنی مزید اخراجات سے باز رہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ سی اے اے انتظامیہ نے قوائد کے برخلاف ٹھیکیدار کمپنی کو نوازنے کے لئے بائیس کروڑ روپے سے زائد کی غیر قانونی ادائیگی کی اور اس رقم کو کنسلٹنسی فیس کا نام دیا گیا ، مذکورہ کھاتہ بھی اسی لیئے بند نہیں کیا گیا تھا کہ مشورے کے نام پر مزید رقوم اس کھاتے سے نکلوائی جاتی رہے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ سی اے اے کے پروجیکٹ ڈائریکٹرز اور پلاننگ ڈائریکٹوریٹ کے ذمہ داران کے خلاف ایف آئی اے یا نیب سے تحقیقات کرانی چاہئے تاکہ اضافی ادائیگی کی صورت میں خزانے کو 22 کروڑ روپے سے زائد کے نقصان پہنچانے والوں کو بے نقاب کیا جاسکے ، ذرائع نے کہا کہ سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل کو آڈٹ کی نشاندہی کے بعد فوری طور پر مذکورہ معاملے کی اندروی تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا اعلان کردینا چاہیئے تھا تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے منصوبے کی تکمیل کے باوجود بھی خزانے سے رقوم جاری ہوتی رہیں ۔