نمائندہ امت :
لاہور کی انتظامیہ، بے حیائی پر مبنی نام نہاد ’’عورت مارچ‘‘ کو نقصِ امن کے اندیشے کے پیش نظر آٹھ مارچ کو ریلی نکالنے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے پر قائم ہے۔ کیوں کہ اسی تاریخ کو جماعتِ اسلامی نے یومِ حیا کے طور پر منانے کا اعلان کرتے ہوئے ’’حیا واک‘‘ کا اہتمام کیا ہے۔ تاہم ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’عورت مارچ‘‘ کے منتظمین ہر صورت 8 مارچ ہی کو اخلاق باختہ مظاہرہ کرنے پر مصر ہیں، جس کے سبب اسلام مخالف اور دینی طبقات میں تصادم کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ تاہم عدالت عالیہ کا آج کوئی ممکنہ حکم یہ ممکنہ ٹکرائو ٹالنے میں معاون ہوسکتا۔
یاد رہے کہ چند سال قبل نام نہاد ’’عورت مارچ‘‘ میں ایسے بے ہودہ اور اخلاق باختہ نعرے اور سلوگن سامنے آئے تھے جس کے باعث عوامی حلقوں میں اشتعال پھیل گیا تھا۔ پچھلے سال بھی لاہور میں ’’عورت مارچ‘‘ کے موقع پر صورتحال کشیدہ ہوگئی تھی۔ حالیہ دنوں لاہور میں جلسے، جلوس اور اجتاعات پر ضابطہ فوجداری کی دفعہ یک سو چوالیس کے تحت پابندی ہے۔
چناںچہ ’’عورت مارچ‘‘ کے منتظم گروپ کے نمائندوں خاور ممتاز اور لینا غنی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے لاہور کی ڈپٹی کمشنر رافعہ حیدر نے اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی سیکریٹری صباحت رضوی کے توسط سے ڈپٹی کمشنر کے فیصلے کو عدالت عالیہ میں چلینج کیا گیا تو یہ رٹ جسٹس مزمل شبیر اختر کے سنگل بنچ کے سامنے سماعت کیلئے پیش کی گئی۔ لیکن انہوں نے یہ مقدمہ ذاتی وجوہ کی بنیاد پر سننے سے انکار کردی اور فائل چیف جسٹس کو بھجوا دی۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے یہ کیس جسٹس انوار حسین کے سنگل بنچ کو بھجوادیا۔ یہاں سرسری سماعت کے بعد عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی سیکورٹی کو نوٹس جاری کردیے ہیں کہ آج، سات مارچ کو عدالت کے روبرو پیش ہوکر اپنے موقف کی وضاحت کریں۔
دوسری جانب گزشتہ روز بے حیا ’’عورت مارچ‘‘ کے منتظمین نے لاہور پریس کلب میں منعقد پریس کانفرنس میں اسلام پسند سوشل میڈیا صارفین پر کڑی تنقید کی۔ اور صحافیوں کے سوالات کو بھی نام نہاد ’’عورت مارچ‘‘ کے خلاف پروپیگنڈا قرار دیا۔ جس کے باعث لاہور پریس کلب میں صورتحال کشیدہ ہوگئی تھی۔ تاہم سینیئر صحافیوں نے معاملہ سنبھال لیا۔ پریس کانفرنس کے دوران کچھ فیشن ایبل عورتیں، منتظمین سے سوال کرنے والے صحافیوں کی فوٹیج اور تصاویر بنا کر اپنے موبائل فونز سے کسی ارسال بھی کرتی رہیں۔
واضح رہے کہ ڈپٹی کمشنر لاہور نے این او سی جاری کرنے سے انکارکرتے ہوئے جو وجوہات بیان کی ہیں ان میں یہی بنیادی وجہ بتائی گئی ہے کہ ’’عورت مارچ‘‘ کے سلوگنز پر عوامی حلقوں میں مزاحمت پائی جاتی ہے اور شدید اعتراض کیا جاتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر نے اپنے مراسلے میں جماعت اسلامی کی ’’حیا واک‘‘ کا بھی ذکر کیا اور ٹکرائو کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔
جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی ناظمہ سے جب اس حوالے سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ، سب کے کردار سب کے سامنے ہیں۔ جماعت اسلامی کی خواتین کے حقوق کی تحریک کا ایسے لوگوں کے ساتھ موازنہ اور تقابل کرنا ہی مناسب نہیں۔ جماعت اسلامی مسلسل اپنا فرض ادا کررہی ہے اور ان دنوں بھی جماعت اسلامی کا ایک نمائندہ وفد، خواتین کے حقوق کی نمائندگی اور وکالت کیلئے اقوامِ متحدہ میں موجود ہے۔ ہم نے اپنا کام کرنا ہے۔ آٹھ مارچ کو جماعت اسلامی کی ’’حیا واک ‘‘ ریلی ڈسپلن کی پابندی کرتے ہوئے اپنے مقررہ وقت پرشروع اور ختم ہوگی۔
ادھر ’’عورت مارچ‘‘ کی منتظمین نے واضح کیا ہے کہ اگر آج عدالت عالیہ کی طرف سے ڈپٹی کمشنر کے فیصلے کیخلاف ریلیف نہ بھی مل،ا تو ’’عورت مارچ‘‘ ضرور ہوگا اور ناصر باغ کے مقام پر ہی ہوگا۔