عمران خان :
ملکی محصولات میں اضافہ کیلیے امیر ترین پاکستانی افراد کے بیرون ملک اثاثوں پر کیپٹل ویلیو ٹیکس وصول کرنے کا دائرہ بڑھا دیا گیا۔ ایف بی آر کو 140 ممالک سے کروڑوں ڈالرز کے مساوی اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں کا ڈیٹا ملنے لگا۔ اب تک کی کارروائی میں صرف کراچی میں 250 کے لگ بھگ امیر ترین افراد کو نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں۔ جن کے ذمے ساڑھے تین ارب سے زائد کا سی وی ٹیکس واجب الادا ہے۔ ایک درجن سے زائد کے بینک اکاوئنٹس منجمدکرنے کی کارروائی شروع کر دی گئی۔
’’امت‘‘ کو موصول اطلاعات کے مطابق ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹرنیشنل آڈٹ ان لینڈ ریونیو کی جانب سے بیرون ملک اثاثے رکھنے والے امیر ترین افراد کا ڈیٹا ملنے کے بعد ہونے والی چھان بین کے نتیجے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیونے بیرون ملک غیر منقولہ جائیدادوں پر کیپٹل ویلیو ٹیکس کی وصولی کیلئے ملک کے معروف تاجروں اور بینکرز کے بینک اکائونٹس کو منجمد کرنا شروع کردیا ہے۔ اب تک صرف کراچی سے 250 کے لگ بھگ امیر ترین افراد کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ جبکہ 25 امیر ترین افراد کے بینک کھاتے اس کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے صولی کیلئے منجمد کر دیے گئے ہیں۔
صرف گزشتہ جمعہ کے روز بینک اکاؤنٹس منسلک کرکے 15 امیر ترین افراد کو ریکوری کے نوٹس جاری کیے گئے۔ ذرائع کے بقول ان افراد کی پاکستان سے باہر غیر منقولہ جائیدادیں ہیں اور وہ کیپٹل ویلیو ٹیکس ادا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ جمعہ کے روز ہونے والی کارروائی میں ایف بی آر نے ملک بھر میں 15 انتہائی امیر افراد کے خلاف کارروائی کی۔ ان میں سے ایل ٹی یو کراچی کے دائرہ اختیار میں آٹھ افراد آتے ہیں۔ جن میں ایم علی طیبہ، زلیخہ طیبہ، راحیلہ علیم، فیصل مقبول شیخ، آفاق احمد خان، زبیدہ محبوب، ماہ نور بھیم جی اور عامر مستالیہ شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ کیپٹل ویلیو ٹیکس کی ریکوری کے لیے 15 افراد کے بینک اکائونٹس منسلک کیے گئے تھے۔ ایسے افراد سے 45 کروڑ روپے کی رقم وصول کی جا سکتی ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ کارروائی وزیراعظم اور وزیر خزانہ کی ہدایت پر شروع کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے ٹیکس حکام کو ہدایت کی ہے کہ نادہندگان سے ٹیکس کی وصولی کو یقینی بنایا جائے۔ سی وی ٹی فنانس ایکٹ 2022 کے ذریعے ایک رہائشی فرد کے غیر ملکی اثاثوں پر مالیت کے ایک فیصد پر لاگو کیا گیا تھا۔ جہاں ٹیکس سال کے آخری دن تک اس طرح کے اثاثوں کی مالیت مجموعی طور پر 100 ملین روپے سے زیادہ ہے۔
ایف بی آر کے مطابق غیر ملکی اثاثوں کی ایک جامع تعریف فراہم کی گئی ہے۔ جس میں بالواسطہ اور رہائشی فرد کے فائدہ مند ملکیت کے تحت بیرون ملک رکھے گئے اثاثے شامل ہیں۔ غیر ملکی اثاثوں کی قیمت متعلقہ غیر ملکی کرنسی میں ٹیکس، سال کے آخری دن غیر ملکی اثاثوں کی کل لاگت ہوگی۔ جسے اس دن کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے مطلع کردہ شرح مبادلہ کے مطابق روپے میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اگر غیر ملکی اثاثوں کی قیمت کا معقول درستگی کے ساتھ تعین نہیں کیا جا سکتا تو ٹیکس سال کے آخری دن منصفانہ مارکیٹ ویلیو کو اس مقصد کے لیے لیا جائے گا اور روپے کی تبدیلی کا اطلاق مذکورہ طریقے سے کیا جائے گا۔
ایف بی آر نے کہا کہ غیر ملکی اثاثے رکھنے والا رہائشی شخص اس وقت سی وی ٹی ادا کرے گا، جب ٹیکس سال کے لیے انکم ٹیکس ریٹرن واجب الادا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ان لینڈ ریونیو کے افسر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص سے ڈیفالٹ سرچارج کے ساتھ سی وی ٹی کی وصولی کے لیے قابل اپیل آرڈر پاس کرے، جو سی وی ٹی ادا کرنے یا سی وی ٹی جمع کرنے میں ناکام رہتا ہے یا جمع کرنے کے بعد وفاقی حکومت کے کریڈٹ کو ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے آنے والے دنوں میں تمام سی وی ٹی نادہندگان کے نام پبلک کرنے کا امکان ہے۔ ذرائع کے بقول بیرون ملک اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں کی دولت کا اندازہ لگانے اور ٹیکس وصول کرنے کا کام گزشتہ دور حکومت میں سابق چیئرمین شبر زیدی کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔ جس کے لئے پاکستان کے بین الاقوامی سطح پر ملکوں کے ساتھ معاہدوں کے تحت اثاثے رکھنے والے افراد کے ریکارڈ کے تبادلے ہونا شروع ہوئے۔ ان کی چھان بین کیلئے ایف بی آر میں باقاعدہ ایک انٹرنیشنل آڈٹ ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا۔ تاکہ بیرون ملک سے موصول ہونے والے ریکارڈ کی چھان بین کرکے ان افراد سے وصولی کیلئے متعلقہ ریجنل ٹیکس آفسز اور لارج ٹیکس پیئرز یونٹوں کو رپورٹس دی جا سکیں۔
اس کے لئے گزشتہ برس کے آخر میں سی وی ٹیکس کی وصولی کا قانون نافذ کرنے کے بعد کارروائی شروع کی گئی۔ جس میںان امیر ترین افراد کو ان کے بیرون ملک اثاثوں کی چھان بین کے بعد واجب الادا ٹیکس ادا کرنے کے لیے بذریعہ نوٹس رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں 15 دسمبر تک کی مہلت دی گئی۔ تاہم ان میں سے کسی نے ٹیکس ادا کرنے کی زخمت گوارا نہیں کی۔ جبکہ ابھی تک یہ افراد ٹیکس ادا کرنے سے گریزاں ہیں۔