سندھ کے اساتذہ نے امتحانات آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ مسترد کردیا

کراچی(اسٹاف رپورٹر)سندھ کے اساتذہ نے امتحانی نظام آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ مسترد کردیا

سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرارز ایسوسی ایشن( سپلا) کے مرکزی صدر پروفیسر منور عباس اور آل سندھ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے صدر حیدر علی اور تنظیم اساتذہ کے پروفیسر ابو عامر عظمی نے کہا ہے کہ ناقص کارکردگی اور امتحانی نظام کو آوٹ سورس کرنے پر محکمہ بورڈز و جامعات کو ختم کیا جائے جب کہ جامعات کو سندھ ہائر ایجوکیشن کے ماتحت اور بورڈز کو محکمہ کالج ایجوکیشن کے ماتحت کیا جائے ۔

ایس ایم کالج  کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئےانہوں نے دو ٹوک کہا کہ امتحانی نظام آوٹ سورس نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے 8 بورڈز ایڈہاک ازم کے باعث تباہی کا شکار ہیں ان آٹھوں بورڈز میں گزشتہ 6 برس سے مستقل کنٹرولر، سکریٹرییز اور آڈٹ افسران ہی نہیں ہیں پانچ بورڈز میں مستقل چیرمین نہیں ہیں اور سرچ کمیٹی نے ڈیڑھ سال برس جن افسران کو بھرتی کرنے کی سفارش کی تھی اور ان کی ملک کی تین پریمئر ایجنسیوں سے تصدیق بھی کرائی تھی ان کا بھی تقرر نہیں کیا گیا۔
لاڑکانہ بورڈ کے چیرمین پروفیسر نسیم میمن نے بورڈ کے امتحانی نظام کو آوٹ سورس کرنے کی سفارش اس لیے کی کہ بورڈ میں چھ برس سے مستقل کنٹرولر، سکریٹری اور آڈٹ افسر نہیں اور اس حوالے سے انہوں نے کنٹرولنگ اتھارٹی کو خطوط بھی لکھے تو صورتحال اتنی خراب ہوگئی کہ مافیا نے ان کا بورڈ میں داخلہ ہی روک دیا۔ ان اہم اسامیوں پر تقرری نہ ہونے سے بورڈز میں کلرکوں اور دوسرے محکموں اور جونیئر افسران کا راج ہے۔

 انہوں نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ نے واضح طور پر حکم دے رکھا ہے کہ ریٹائرڈ، ایڈشنل چارج، او پی ایس اور ڈیٹلمنٹ چارج اور دوسرے محکموں سے آنے پر پابندی ہے مگر سندھ کے تعلمی بورڈز میں صورتحال اس کے برعکس ہے کیونکہ جو محکمہ ان کو کنٹرول کرتا ہے وہ خود یہ کررہا ہے محکمہ بورڈز و جامعات میں 18 ملازمین، ڈیپوٹیشن ، او پی ایس اور دوسری جگہوں سے آئے ہوئے ہیں ڈپٹی سکریٹری کو ایڈشنل سکریٹری کا چارج دے رکھا اور گریڈ 18 کا افسر بورڈ میں کرپشن کی تحقیقات بھی کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک بورڈز گورنر کے پاس تھے صورتحال بہت بہتر تھی ایڈہاک ازم نہیں تھا جہاں بے قاعدگی ہوتی تھی وہاں ذمہ داروں کے خلاف ایکشن ہوتا تھا لیکن جب بورڈز وزیر اعلی کے پاس آئے تو صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی اور بورڈز ایڈہاک ازم کا شکار ہونے لگے یہ صورتحال مزید خراب ہوئی جب بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی محکمہ بورڈز و جامعات کے وزیر کو منتقل کردی گئی تب سے لے کے اب تک جعلی مارک شیٹوں، نمبر بڑھانے اور اے ون گریڈ کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میٹرک بورڈ کے سالانہ امتحانات میں 52 ہزار نے اے ون گریڈ لیا تھا لیکن اب ان کی تعداد 65 ہزار تک پہنچ گئی اسے طرح فیل امیدوار 20 ہزار سے زائد تھے مگر ضمنی امتحانات 3 ہزار نے دیا باقی 17 ہزار کہاں گئے