اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوامیں انتخابات التوا کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل (منگل) کو ساڑھے 11 بجے سنایا جائے گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ وفاقی حکومت نے ایسا کوئی مواد نہیں دیا جس سے الیکشن ملتوی ہو سکیں،انتخابات کی راہ میں حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیاگیاعدالت نے توازن قائم کرنا ہوتا ہے،حکومت اور دیگر فریقین کی درست معاونت نہیں ملی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ حکومت نے الیکشن کرانے کی آمادگی ہی نہیں ظاہر کی،ماضی میں عدالت اسمبلی کی تحلیل کالعدم قرار دے چکی ہے،ماضی میں حالات مختلف تھے،ملک میں کوئی سیاسی مذاکرات نہیں ہو رہے،رکاوٹوں سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی تھی، لوگ من پسند ججز سے فیصلہ کرانا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات التوا کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ کوشش ہے اپنی بات مختصر رکھوں،چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ آپ کتنی دیر دلائل دیں گے،عرفان قادر نے کہاکہ میں کوشش کروں گا 30 منٹ میں اپنی بات مکمل کرلوں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہاکہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بنچ سے الگ ہو جاتے ہیں،ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں، بنچ سے جانبداری منسوب کی جا رہی ہے،پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کر چکی ہے، فل کورٹ پر عدالت اپنے رائے دے چکی ہے، پتہ پتہ بوٹا بوٹا باغ تو سارا جانے ہے،جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
عرفان قادر نے کہاکہ عدالت پرعدم اعتماد نہیں انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے،عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازع کا شکار ہے،فی الحال انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ،میری نظر میں انصاف نہیں ہورہا،ممکن ہے کچھ غلط فہمی ہو،الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑنا چاہئے،فیصلہ تین دو کا تھا یا 4/3 کا اس پر بات ہونی چاہئے،9 میں سے 4 ججز نے درخواستیں خارج کیں،3 ججز نے حکم جاری کیا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یکم مارچ کا عدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا،عدالت اس تنازع کو حل کرنے کیلئے اقدامات کرے،فیصلے کی تناسب کا تنازع ججز کا اندرونی معاملہ نہیں ہے،درخواستیں خارج کرنے والے چاروں ججز کو بھی بنچ میں شامل کیا جائے،سرکلر سے عدالتی فیصلے کا اثر زائل نہیں کیا جا سکتا،چیف جسٹس اپنے سرکلر پر خودجج نہیں بن سکتے،عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے۔
عرفان قادر نے کہاکہ ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہئے،قومی مفاد آئین اور قانون پر عملدرآمد میں ہے،آئین میں 90دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے،ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں،ملک میں انتخابات ایک ساتھ ہونا چاہئیں، ایک سال انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہو گی،قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے،صوبائی اسمبلی چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہے2 سال پہلے نہیں۔
حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کر سکتی،چیف جسٹس
پنجاب اور خیبرپختونخوا التوا کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں،حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کر سکتی۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں،حکومت عدالت کا بائیکاٹ نہیں کر سکتی۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی، اٹارنی جنرل نے کہاکہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے کہاکہ درخواست میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قراردینے کی استدعا ہے، صدر کو کے پی میں تاریخ دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے، فیصلے میں عدالت نے پنجاب کیلیے صدر، کے پی کیلیے گورنر کو تاریخ دینے کا کہا تھا،گورنر کے پی نے درخواستیں دائر ہونے تک کوئی تاریخ نہیں دی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ سوال اٹھایا تھا الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا،عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے ،1988 میں بھی عدالت کے حکم پر انتخابات آگے بڑھائے گئے تھے، عدالت زمینی حقائق کا جائزہ لے کر حکم جاری کرتی ہے،جس حکم نامے کا ذکر کررہے ہیں اس پر عمل ہو چکا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے،عدالتی حکم الیکشن کمیشن پر لازم تھا، الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو باقی استدعائیں ختم ہو جائیں گی۔