اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) حکومت نے سپریم کورٹ کی جانب سے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے حکم کو مسترد کر دیا ہے تاہم یہ استرداد یا عدالتی حکم پر عمل درآمد سے انکار انتظامی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ حکومت کے بقول ایک قانونی نکتے کی بنا پر کیا جا رہا ہے جس کے مطابق حکومت کا دعوی ہے کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ججوں کی اقلیت نے دیا ہے جبکہ اکثریتی فیصلہ اس سے پہلے چار تین کے تناسب سے آچکا ہے، اور اس فیصلے میں انتخابات کے التواء سے متعلق پٹیشن کوعملی طور پر مسترد کر دیا گیا تھا۔
حکومت کا یہ موقف کس حد تک درست یا غلط ہے, یہ بات آنے والے وقت میں ثابت ہوگی تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا ایک خاص حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے۔حکومت کا یہ موقف قانونی پیچیدگی اور موشگافیوں کا نیا راستہ کھولے گا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر یہ فیصلہ فل کورٹ یا نو رکنی بینچ کی طرف سے آ یا ہوتا تو حکومت کے پاس فوری تعمیل کے سوا کوئی گنجائش نہیں تھی تاہم عدلیہ میں تقسیم کے عنصر نے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے حوصلے بلند کر دیے ہیں اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ہر چھوٹا بڑا حکومتی عہدیدار اعلی عدالت کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر سپریم کورٹ حکومت سے وضاحت طلب کرے گی اور تسلی بخش جواب نہ ملنے پر توہین عدالت کی ممکنہ کارروائی کا آغاز ہو گا تاہم حکومت کی جانب سے توہین عدالت کے حکم کو بھی اسی بنیاد پر رد کر کے چیلنج کیا جا سکتا ہے کی اس کے نزدیک "اکثریتی فیصلہ” مقدم ہے ،کسی عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی گئی لہذا توہین عدالت کا جواز نہیں بنتا۔نواز لیگ کے ایک رہنما طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ حکومت تو احترام عدالت پر کاربند ہے، وہ توہین عدالت کاسوچ بھی نہیں سکتی۔ذرائع کے مطابق حکومت کے قانونی مشیروں نے کھل کر عدالتی جنگ لڑنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس دوران فیصلہ دینے والے فاضل جج صاحبان کے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا جا سکتا ہے جس کا اشارہ مسلم لیگ نون کے قائد میاں نوازشریف نے دیا ہے۔ اگرچہ بظاہر انہوں نے حکومت کو ریفرنس دائر کرنے کا مشورہ دیا ہے تاہم یہ مشورہ ایک لحاظ سے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔
قانونی اور آئینی ماہرین کے مطابق دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان اس بنیاد پر عدالتی فیصلے کو چیلنج کر سکتا ہے کہ عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں انتخابی شیڈول کا بھی اعلان کر دیا ہے جو الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں مداخلت ہے ۔ذرائع کے مطابق مذکورہ قانونی اور آئینی معاملات آگے چل کر عدالتی حکم پر عمل درآمد میں تاخیر یا رکاوٹ کا باعث بن سکتے ہیں ۔