سجاد عباسی
اس سنہری دوپہر کو ہرمٹیج میوزیم کی سیر بھی ایک خوبصورت تجربہ ثابت ہوئی۔ سینٹ پیٹرزبرگ جانے والے سیاحوں کی پہلی ترجیح یہی عجائب خانہ ہے جہاں روس کو ماضی کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں بکھری تاریخ اتنی کثیر الجہت ہے کہ چند گھنٹے کا وزٹ اس کے مطالعے کیلئے ناکافی ہے۔ سیاحوں کی رہنمائی کیلئے یہاں بروشرز بھی دستیاب ہیں جبکہ گائیڈ بھی موجود ہوتے ہیں۔
ہرمٹیج (HERMITAGE) فرانسیسی لفظ ہرمٹ سے ماخوذ ہے جس سے مراد آشرم یا خانقاہ ہے۔ ایئر پورٹ کے رن وے جیسی وسیع و عریض شاہراہ پر گاڑی سے اتر کر ہم سفید فصیلوں والی بلند و بالا عمارت کے مرکزی دروازے سے میوزیم میں داخل ہوئے تو اندر موجود پہلی عمارت چرچ کی تھی۔ ہرمٹیج میوزیم دراصل 6 تاریخی عمارتوں پر مشتمل کمپلیکس میں قائم ہے جس میں پیڑ دی گریٹ اور دیگر زار شاہی حکمرانوں کے زیر استعمال رہنے والا سرمائی محل(winter palace) بھی شامل ہے۔ اسٹیٹ ہرمٹیج میوزیم آف آرٹ اینڈ کلچر، دنیا کا دوسرا بڑا آرٹ میوزیم ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ روسی ملکہ کیتھرائین دی گریٹ جو آرٹ کی دلدادہ تھی، نے 1764ء میں ایک جرمن تاجر سے پینٹنگز کا ایک کلیکشن خریدا۔ جسے یہاں رکھا گیا تھا پھر ملکہ کے مرنے کے کافی عرصے بعد 1852ء میں اسے میوزیم کا درجہ دے کر عوام کیلئے کھول دیا گیا۔ اس میوزیم میں کوئی 30 لاکھ پینٹنگز موجود ہیں جو دنیا کا سب سے بڑا پینٹنگز کلیکشن بتایا جاتا ہے۔ تاہم ان پینٹنگز کا کچھ حصہ نمائش کیلئے رکھا جاتا ہے۔ مذکورہ میوزیم اور پیٹر دی گریٹ کا سرمائی محل خاص طو رپر سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ جہاں شاہی خاندان کے زیر استعمال رہنے والی اشیا، مثلاً فرنیچر وغیرہ کے علاوہ مختلف ادوار کے سکے اور قیمتی نوادرات بھی رکھے گئے ہیں جن میں قبل از مسیح کے نوادرات بھی شامل ہیں۔ قدیم زیورات اور آرائشی اشیا، اطالوی اور ہسپانوی فائن آرٹ کے نمونے۔ گیارہویں صدی سے بیسویں صدی تک کی مختلف کرنسیاں اور سکے۔ بادشاہوں، ملکائوں، شہزادوں، شہزادیوں سمیت اہم حکومتی شخصیات اور فوجی افسران کے مجسمے اور جانے کیا کیا کچھ ہے، جسے دیکھنے کیلئے سیاح امڈے چلے آتے ہیں۔ گویا یہاں 800 سو سالہ روسی تاریخ کو منجمد کردیا گیا ہے۔
جدید روس کے معمار۔۔ پیٹر دی گریٹ اور ملکہ کیتھرائن
ہرمٹیج میوزیم کی روح رواں یا بانی ملکہ کیتھرائن (دوم) یا کیتھرائن دی گریٹ 1762ء سے لے کر 1796ء تک یعنی مسلسل 25 برس سلطنت روس کی حکمران رہنے والی واحد خاتون ہے جو اپنے شوہر پیٹر سوم کیخلاف بغاوت کے بعد اقتدار میں آئی تھی۔ کیتھرائن کے دور میں روس نے غیر معمولی ترقی اور استحکام حاصل کیا اور اس کا شمار یورپ کی عظیم طاقتوں میں ہونے لگا۔ قبل ازیں پیڑ دی گریٹ نے قدیم روس کو مغربیتّ اور جدت کی طرف نہ صرف مائل کیا، بلکہ اسے عظیم فوجی اور اقتصادی طاقت بنانے میں بھی کامیابی حاصل کی۔
پیٹر دی گریٹ نے جدید روس کے لیے بنیادی اصلاحات کیں۔ اس کے بیشتر معتمدین اور مشیروں کا تعلق مغربی یورپ سے تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے ملک کو مغرب ہی کی طرز پر ترقی دینا چاہتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پیٹر دی گریٹ کے ناقدین اسے روس کو Westernise کرنے کا ’’ذمہ دار‘‘ سمجھتے ہیں۔ پیٹر نے روسی افواج کو طاقت اور استعداد کو بڑھاتے ہوئےجدید خطوط پر استوار کیا۔ دراصل روس کو ایک بڑی بحری طاقت بنانا اس کا خواب تھا۔ اس خواب کے پیچھے دریائے ڈان پر موجود خلافت عثمانیہ کے AZOV قلعے کو فتح کرنے کی خواہش کارفرما تھی جو اس سے پہلے دو ناکام کوششوں اور بھاری نقصان کے باوجود فتح نہ ہو سکا تھا۔ تاہم بحری طاقت میں غیر معمولی اضافے کے بعد روس کو بالآخر اس میں کامیابی مل گئی۔ دوسری طرف پیٹر دی گریٹ نے دفاعی میدان میں انقلابی اقدامات کے ساتھ ساتھ کلیسا کے کردار، تعلیم کے فروغ اور معیشت کی دنیا میں بھی بنیادی اصلاحات کیں۔ اس طرح پیٹر دی گریٹ کو جدید روس کے معماروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس نے ہر شعبے کو ترقی دینے اور اس میں جدت لانے کیلئے، بالخصوص اقتصادی اور دفاعی استحکام کی خاطر ہمہ جہت اصلاحات پر کام کیا۔
ہرمٹیج میوزیم کی دیدہ زیب عمارت کا بیرونی منظر
پیٹر دی گریٹ کی اصلاحات کے دور رس اثرات مرتب ہوئے اور روس اقتصادی اور دفاعی دونوں شعبوں میں بہت آگے چلا گیا۔ انیسویں صدی میں جب ماسکو، ٹیکسٹائل انڈسٹری کا لیڈر بن کر سامنے آیا تو سینٹ پیٹرزبرگ دفاعی صنعت کا مرکز بن گیا۔ مگر روس کے عوام پے در پے جنگوں سے بیزار آ چکے تھے۔ دیہات سے روزانہ لاکھوں مزدور فیکٹریوں میں کام کرنے آتے تھے۔ پیٹرزبرگ نے انہیں روزگار کے ساتھ ساتھ شعور بھی دےدیا تھا۔ 1894ء میں مرد آہن الیگزینڈر سوم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا نکولس دوم بادشاہ بنا، مگر وہ ایک کمزور منتظم تھا۔ 1905ء میں مزدوروں کی احتجاجی ریلی سے سیاسی سرگرمیوں، احتجاج اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا جو طول پکڑتا گیا اور ایک لاکھ مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔ ہڑتالیوں کا سرخیل ایک پادری تھا جس نےشاہی محل کے سامنے مزدوروں کا بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ کرایا جس نے محل کے در و دیوار کولرزا کر رکھ دیا۔ مظاہرین ڈیوٹی کے اوقات میں کمی اور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ خوفزدہ شاہی گارڈز نے اوپر کے حکم پر فائرنگ کر دی جس سے ایک ہزار افراد مارے گئے۔
یہ خونی واقعہ روس میں بادشاہت کے زوال کا نقطہ آغاز بن گیا کیونکہ حقوق مانگنے والےعام لوگوں کے قتل عام نے بادشاہت کو نفرت کی علامت بنا دیا تھا۔پھر چند ہی برسوں میں پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی جس میں جلد ہی روس بھی کود گیا ۔اس جنگ نے روسی معیشت کو نیم جاں کر دیا جبکہ معاشی بد حالی نے حکمرانوں کے خلاف عوامی نفرت اور بیزاری بڑھا دی ۔ پھر یوں ہوا کہ 23 فروری 1917 کو خواتین کے عالمی دن پر جب دارالحکومت میں مرد فیکٹری میں مزدوری کرنے گئے ہوئے تھے، تو خواتین راشن کے لئے قطاروں میں کھڑی تھیں۔ کئی گھنٹے کے انتظار کے بعد بتایا گیا کہ راشن ختم ہو چکا ہے۔ اس پر خواتین نے احتجاج شروع کردیا جس میں شام کو مزدوری سے لوٹتے مرد بھی شامل ہوگئے جنہیں بھوک نے پہلے ہی نڈھال کر رکھا تھا۔
دریائے نیوا کے کنارے
شاہی محل اور غریبوں کے درمیان صدیوں تک حائل رہنے والا دریائے نیوا ،اس دن مزدوروں کے سیلاب کے سامنے بے بس ہو گیا۔ عوامی جلوس دریا عبور کرکے اس سرمائی محل پہنچ گیا جہاں آج روس کی کئی سو سالہ تاریخ ہماری آنکھوں کے سامنے منجمد تھی۔مگر اب کی بار مزدوروں کا مطالبہ صرف روٹی اور امن نہیں تھا بلکہ وہ بادشاہت کے خاتمے کے درپے تھے۔شاہی محافظوں کی ہمت جواب دے گئی کیونکہ مظاہرین کی تعداد تین لاکھ کو چھونے لگی تھی۔حالات قابو کرنے کے لیے فوج بلائی گئی مگر پیشہ ور فوج کا بڑا حصہ تو جنگ میں جھونک دیا گیا تھا اور رنگروٹس سمیت جو باقی بچے تھے وہ حوصلے سے خالی تھے۔چنانچہ فائرنگ کا حکم ملنے پر فوجی بھی ہتھیار پھینک کر مظاہرین میں شامل ہوگئے اور یوں زار بادشاہت تین سو برس بعد اپنے انجام کو پہنچ گئی۔خانہ جنگی میں بادشاہ اور ملکہ دونوں مارے گئے۔کچھ عرصے کے لیے عبوری حکومت قائم کی گئی۔ بالشویک لیڈر ولادیمیرلینن جوعرصے سے سوئٹزرلینڈ میں جلاوطن تھا، روس واپس آ گیا جہاں اس کی جماعت نے الیکشن میں کامیابی بھی حاصل کی۔ سات اکتوبر انیس سو سترہ کو بالشویک گروپوں نے دھاوا بول کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور روس دنیا کا پہلا کمیونسٹ ملک بن گیا۔کمیونزم کا اقتدار لگ بھگ 73 برس قائم رہنے کے بعد انیس سو نوے میں گورباچوف کی "اصلاحات” کو پیارا ہوگیا۔ مگر روس پر کمیونزم کی چھاپ اس قدر گہری اور سرحدوں سے باہر اس کے اثرات اتنے ہمہ جہت رہے کہ اب 33 برس بعد بھی روسیوں کو بار بار یہ وضاحت کرنا پڑتی ہے کہ روس اب کمیونسٹ ملک نہیں رہا (جاری )