اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جائزہ لینا ہوگا کہ اس معاملے میں آئینی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل، سیاسی جماعتوں اور فریقین سمیت پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کو بھی قانونی معاونت کے لیے نوٹس جاری کرنے کے ہدایت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بنچ میں شامل ہیں۔
سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کیخلاف درخواستوں پر امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بل زیرالتوا نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے،صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا، سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں8 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی،بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی بنچ کا حصہ ہیں ،پارلیمنٹ سے منظور ترمیمی بل کو چار مختلف درخواست گزاروں نے چیلنج کررکھا ہے،درخواستوں میں پارلیمنٹ سے منظور ترمیمی بل کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہاکہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے، قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے،وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کرانے پر آمادہ نہیں،عدالت کو انتخابات نہ کرانے پر ازخودنوٹس لینا پڑا۔
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہاکہ مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی،دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایاگیا،صدر مملکت نے اعتراضات عائد کرکے بل اسمبلی کو واپس بھیجا، سیاسی اختلاف پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیاگیا،مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد 10 روز میں بل قانون بل جائے گا، آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے،بل کے تحت ازخودنوٹس اور بنچز تشکیل کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی،بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہ بل قانون بننے کے لائق ہے،کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیرقانونی ہے،بل کابینہ میں پیش کرنا اور منطوری دونوں انتظامی امور ہیں،
بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا بھی غیر آئینی ہے، بل زیرالتوا نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے،صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا، سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں،چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی تو عدالت مکمل نہیں ہوتی،چیف جسٹس اور ججز کے اختیارات کم نہیں کئے جا سکتے،چیف جسٹس کا دفتر 2 سینئرججز کے ساتھ کیسے شیئر کیا جاسکتا ہے؟
وکیل درخواست گزار نے کہاکہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے، قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے،وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کرانے پر آمادہ نہیں،عدالت کو انتخابات نہ کرانے پر ازخودنوٹس لینا پڑا۔
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہاکہ مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی،دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایاگیا،صدر مملکت نے اعتراضات عائد کرکے بل اسمبلی کو واپس بھیجا، سیاسی اختلاف پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیاگیا،مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد 10 روز میں بل قانون بل جائے گا، آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے،بل کے تحت ازخودنوٹس اور بنچز تشکیل کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی۔
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہاکہ چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں،چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی تو عدالت مکمل نہیں ہوتی،چیف جسٹس اور ججز کے اختیارات کم نہیں کئے جا سکتے،چیف جسٹس کا دفتر 2 سینئرججز کے ساتھ کیسے شیئر کیا جاسکتا ہے؟
وکیل درخواست گزار نے کہاکہ ریاست کے ہر ادارے کے اقدامات کاسپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے، بل پاس ہو جائے تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔