محمد قاسم :
پشاور کی سنٹرل جیل میں سیکورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران 600 موبائل فونز برآمد کر لیے جبکہ سیکیورٹی کی بھاری نفری بھی تعینات کر دی گئی ہے۔ جھگڑا کرنے والے دونوں گروپوں کو قریبی اضلاع کی جیلوں کو منتقل کر دیاگیا ہے۔ تصادم کے دوران مختلف بیرکوں کے 11 قیدی اور 4 اہلکار زخمی ہوئے۔ جس کی رپورٹ محکمہ داخلہ کو ارسال کر دی گئی ہے۔ دوسری جانب آئی جی جیل خانہ جات نے انکشاف کیا ہے کہ پشاور سنٹرل جیل میں گنجائش سے زیادہ موود ہیں۔ جبکہ معاون خصوصی برائے جیل خانہ جات نے شر پسند قیدیوں پرکڑی نظر رکھنے سمیت سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب پر کام جلد مکمل کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق سنٹرل جیل پشاور میں قیدیوں کے درمیان ہنگاموں اور توڑ پھوڑ کے واقعات کے بعد سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ جنہوں نے آپریشن کے دوران 600 موبائل فونز برآمد کرلیے ہیں۔ جھگڑا کرنے والے دونوں گروپوں کے قیدیوں کو قریبی جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سینٹرل جیل پشاور میں ہنگاموں کے باعث 11 قیدی اور 4 جیل اہلکار زخمی ہوئے۔ تصادم سے متعلق تفصیلی رپورٹ محکمہ داخلہ خیبرپختون کو ارسال کردی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق قیدیوں کو چارسدہ اور نوشہرہ کی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ جبکہ گزشتہ روز سیکیورٹی فورسز کی نگرانی میںآپریشن کے دوران 600 سے زائد موبائل فونز قیدیوں سے برآمد کیے گئے۔
آئی جی جیل خانہ جات عرفان محسود نے بتایا کہ جیل میں 2 انتہائی خطرناک گروپوں کے درمیان مسئلہ چل رہا تھا۔ جس پر انہیں مختلف جیلوں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو وہ جیل انتظامیہ کے ساتھ بھی لڑنے لگے۔ تاہم لڑنے والے دونوں گروپوں کے قیدیوں کو قریبی اضلاع کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سینٹرل جیل پشاور میں قیدیوں کی گنجائش 3000 ہے۔ تاہم اس وقت 3800 افراد قید ہیں۔ جن میں عسکریت پسند اور انتہائی خطرناک قیدی بھی موجود ہیں۔ ہائی پروفائل شدت پسندوں کو دیگر قیدیوں سے الگ رکھا گیا ہے۔ اسی طرح سپرنٹنڈنٹ جیل مقصود خان کے مطابق جیل میں 500 سے زائد قیدیوں کو مختلف نوعیت کی سزائیں دی جاچکی ہیں۔ تاہم سنٹرل جیل سے جرائم پیشہ افراد کی جیل سے آپریٹنگ میں کوئی حقیقت نہیں۔ سینٹرل جیل میں اب حالات مکمل طور پر قابو میں ہیں اور کسی کو ہنگامہ آرائی یا قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
دوسری جانب نگران وزیر اعلیٰ کے مشیر جیل خانہ ہدایت اللہ آفریدی نے کہا کہ پشاور کی سنٹرل جیل میں کیمروں کی تنصیب پر کام جاری ہے۔ جس سے موبائل فون اور ڈرگز کی فراہمی اور قیدیوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھی جائے گی اور قیدیوں کا رابطہ بھی باہر کے سہولت کاروں سے ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے جیل میں حالیہ تصادم پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ میں ملوث قیدیوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ تاکہ آئندہ کے لئے ایسے واقعات رونما نہ ہوں جو انتظامیہ اور حکومت کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی انتظامیہ جیل کے اندر اپنی سرگرمیوں سے حکومت اور عوام کو آگاہ کیا کرے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جیل میں فی میل قیدیوں کے لیے الگ ہاسٹل، لوڈ شیڈنگ کے دوران سولرائریشن کی سہولت اور اسٹاف کے لیے کمروں کی تعداد بڑھا رہے ہیں۔ تاکہ وہ سکون اور پوری دیانت داری کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے سکیں۔
انہوں نے آئی جی پریزن سے کہا کہ مجھے جیل کے پورے عملے کی ایک لسٹ فراہم کی جائے اور جیل کے تمام ملازمین اپنے موبائل میں دو دو سم رکھیں۔ تاکہ ان کے ساتھ رابطہ کرنے میں آسانی ہو۔ انہیں بتایا گیا کہ صوبے میں 6 ڈسٹرکٹ جیل تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ لیکن فنڈ نہ ہونے کی وجہ زیر التوا ہیں۔ اگر مذکورہ جیلوں کے تعمیراتی کام کے لئے فنڈ فراہم ہو کر بلڈنگ مکمل ہو جائے تو سنٹرل جیل پشاور پر قیدیوں کا بوجھ کافی کم ہو سکتا ہے اور اس کے اچھے نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔
ہدایت اللہ آفریدی کو بتایا گیا کہ خواتین، شی میل اور مرد قیدیوں کو علیحدہ علیحدہ بیرکوں میں رکھا گیا ہے۔ ان کے لئے ایک بڑی لائبریری بنائی گئی ہے۔ جس میں تقریبا 6500 کتب موجود ہیں۔ جن سے وہ ہر وقت استفادہ کر سکتے ہیں۔ جیل میں قیدیوںکے اسپورٹس ٹورنامنٹس بھی منعقد کئے جاتے ہیں جس سے ان پر اچھے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جیل اسپتال میں مریض قیدیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور اس کے لئے آٹھ قابل ترین ڈاکٹروں کی خدمات حاصل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جیل میں تمام قیدیوں کو مذہبی اور عصری علوم بھی سکھائے جاتے ہیں۔ قیدیوں کو سردیوں میں گرم پانی کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔
دوسری جانب پشاور سنٹرل جیل میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف گرینڈ آپریشن اور آئے روز لڑائی جھگڑا کرنے والے قیدیوں کی دیگر اضلاع کی جیلوں میں منتقلی پر دیگر قیدیوں نے سکھ کا سانس لیا ہے اور پشاور جیل کی انتظامیہ کو مستحسن اقدام پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ پشاور سنٹرل جیل کے قیدیوں نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ پشاور جیل میں موجود بعض قیدیوں نے دیگر قیدیوں کی زندگی عذاب میں مبتلا کر رکھی تھی اور آئے روز لڑائی جھگڑے ان کا معمول تھا۔ جس کی وجہ سے رمضان کے مہینے میں بھی انہیں عبادات میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ جیل انتظامیہ کی جانب سے جیل کے اندر امن و امان خراب کرنے والے قیدیوں کے خلاف کارروائی قابل ستائش ہے۔ قیدیوں نے آئندہ کے لئے بھی سخت اقدامات کا مطالبہ کیا۔