ڈالر کی قیمت بڑھنے سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں،
ڈالر کی قیمت بڑھنے سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں،

اوور سیز پاکستانی سالانہ 12 ارب ڈالر ادھار دینے کو تیار

ندیم محمود :
فارن ایکسچینج ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان کی جانب سے قریباً دو ہفتے پہلے یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ انہوں نے وفاقی حکومت کو ماہانہ ایک ارب ڈالر، سالانہ بارہ ارب ڈالر اور مجموعی طور پر دو برس کے عرصے میں چوبیس ارب ڈالر لاکر دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ ڈالر وہ اوورسیز پاکستانیوں سے ادھار لے کر دیں گے۔ انہوں نے انیس سو اٹھانوے میں بھی حکومت پاکستان کو اسی فارمولے کے تحت بیرون ملک پاکستانیوں سے دس ارب ڈالر لے کر دیے تھے۔

یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اس پیشکش کو وفاقی حکومت نے اب تک قبول کیوں نہیں کیا ہے؟ ’’امت‘‘ نے گزشتہ روز ملک بوستان سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اگرچہ اس سلسلے میں خبریں پچھلے دو ہفتے سے چل رہی ہیں۔ تاہم ملک بوستان کی جانب سے وفاقی حکومت کو یہ آفر کیے ہوئے ساڑھے چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ تاہم اب تک اس فارمولے کی منظوری نہیں دی گئی ہے۔ اس کا سبب معلوم کیا گیا تو ملک بوستان کا کہنا تھا ’’میرا خیال ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار چاہتے ہیں کہ پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے۔

اس کے بعد وہ ہمارے فارمولے کی منظوری دیں۔ آج کل وہ آئی ایم ایف کے ساتھ انگیج ہیں۔ جبکہ آئی ایم ایف کے مطالبات شیطان کی آنت کی طرح بڑھ رہے ہیں۔ وہ روز ہمیں ایک نیا جوتا مارتا ہے۔ پاکستان اس کے مطالبات پورے کرتے تھک گیا ہے۔ اگر وفاقی حکومت ہمارے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اووسیز پاکستانیوں سے ادھار پر ماہانہ ایک ارب ڈالر لینا شروع کردے تو ہمیں آئی ایم ایف پروگرام بحالی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور ہم اس سے جان چھڑاسکتے ہیں۔

ترکی نے یہی فارمولہ اختیار کرکے اپنی معیشت کو مضبوط بنایا۔ اردگان نے اپنے عوام کو کہا تھا کہ جس کے پاس بھی ڈالر پڑے ہیں وہ سرکاری اکائونٹس میں جمع کرادے۔ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی تو ہم انہیں جو فرق آئے گا، اس کی ادائیگی کردیں گے۔ مختصر عرصے میں ترکی نے اس فارمولے کے تحت جسے Swap arrangement کہا جاتا ہے، چھ ارب ڈالر اکٹھے کرلئے اور یوں اس کی کرنسی مستحکم ہوگئی۔ تاہم ہم ابھی تک سوچ رہے ہیں۔ Swap arrangement کی پالیسی پوری دنیا میں اختیار کی جاتی ہے۔ یہ بالکل قانونی پیسہ ہوتا ہے جو بینک ٹو بینک منتقل ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔

ایٹمی دھماکوں کی پاداش میں جب انیس سو اٹھانوے میں پاکستان پر معاشی عالمی پابندیاں لگیں تو اسی فارمولے کے تحت میں نے اس وقت کی حکومت کو اوورسیز پاکستانیوں سے دس ارب ڈالر لے کر دیے تھے۔ اب بھی میرے اوورسیز پاکستانیوں سے رابطے ہوئے ہیں۔ ان میں فری لانسرز، ملٹی نیشنل کمپنیاں، منی ٹرانسفر کمپنیاں اور پاکستانیوں کی ٹریڈنگ کمپنیاں ہیں، سب نے لبیک کہا ہے۔ دبئی میں موجود متمول پاکستانی شہری بھی میرے رابطے میں ہیں۔ اسٹیٹ بینک پاکستان منظوری دیدے تو ہم کل سے اکائونٹس میں ڈالر منتقل کرنا شروع کردیں گے۔ کیونکہ اسٹیٹ بینک پاکستان کی منظوری کے بغیر ہم اکائونٹس میں ڈالر منتقل نہیں کرسکتے۔ دیکھتے ہیں وفاقی حکومت کب منظوری دیتی ہے۔ فی الحال شاید اسے آئی ایم ایف کا خوف ہے، کہیں وہ کوئی مسئلہ پیدا نہیں کردے۔‘‘

انیس سو اٹھانوے میں پاکستان پر ایٹمی دھماکوں کی پاداش میں لگنے والی پابندیوں کے بعد اوورسیز پاکستانیوں سے ادھار پر ڈالر لے کر زرمبادلہ کے ذخائر مضبوط کرنے سے متعلق تفصیلات بیان کرتے ہوئے ملک بوستان نے بتایا ’’انیس سو اٹھانوے میں بھی اتفاق سے وزیرخزانہ اسحاق ڈار ہی تھے، بس اسٹیٹ بینک کے گورنر تبدیل ہوگئے ہیں، باقی تو تقریبا ساری ٹیم وہی ہے۔اس وقت اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر یعقوب تھے اور اب ڈاکٹر جمیل ہیں۔ ایٹمی دھماکے کرنے پر پاکستان پر عالمی معاشی پابندیاں لگ گئی تھیں۔ اس وقت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر صرف چار سوملین ڈالر رہ گئے تھے ۔ایک ڈالر بھی کوئی پاکستان کو دینے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ آج تو پھر بھی قرض دینے کے حوالے سے آئی ایم ایف پاکستان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرضہ دینے سے بالکل انکار کر دیا تھا ۔

ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا ۔اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے مجھے بلایا اور کہا کہ پاکستان پر بہت زیادہ عالمی دباؤ ہے۔ معیشت بیٹھ گئی ہے۔ آپ فارن ایکسچینج کا کاروبار کرتے ہیں۔ ہمیں فارن ایکسچینج کا بندوبست کرکے دیں۔ میں نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور دنیا بھر میں جہاں بھی ہمارے اوورسیز پاکستانیوں سے لنک تھے، ان سے رابطہ کیا اور خود بھی بیرون ملک گیا۔ اوورسیز پاکستانیوں کو Swap Arrangement کے لیے راضی کیا۔ انہیں کہا کہ وہ ہمیں ادھار پر ڈالر دیں، دو برس بعد ہم آپ کو یہ رقم واپس کر دیں گے۔ اس پر اوورسیز پاکستانیوں کا سوال تھا کہ دو برس میں ڈالر کی قیمت اوپر چلی جائے گی، یوں ہمیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اس وقت ڈالر کا ریٹ سڑسٹھ روپے تھا۔ میں نے انہیں کہا کل کو اگر ڈالر سو روپے کا ہوتا ہے تو اس صورت میں یہ جو ممکنہ تیس روپے کا فرق ہے، یہ نقصان حکومت پاکستان پورا کرے گی۔ یوں اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آمادہ ہوگئی اور دو برس کا معاہدہ ہوگیا۔

اوورسیز پاکستانیوں نے دل کھول کر پاکستان کو ڈالر دیے۔ دس ارب ڈالر جمع ہوگئے تھے جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مضبوط ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت سنبھلی تو ڈالر مہنگا ہونے کے بجائے سستا ہوگیا۔ یعنی سڑسٹھ روپے کے بجائے چونسٹھ روپے پر آگیا تھا۔ اوورسیز پاکستانیوں نے جب دیکھا کہ یہ تو انہیں نقصان ہونے لگا ہے تو انہوں نے اپنے پیسے واپس لینے شروع کر دیئے اور کہا کہ ہم نے جو اصل رقم دی تھی وہی واپس مل جائے بہت ہے۔ یوں حکومت نے انہیں رقم واپس کرنا شروع کردی۔بہت کم لوگ ایسے تھے جنہوں نے دو سال بعد اپنی رقم واپس لی۔ زیادہ تر نے دو سال سے پہلے ہی اپنی رقم حکومت پاکستان سے وصول کرلی تھی۔‘‘

ملک بوستان کے بقول اوورسیز پاکستانیوں سے بڑھ کر کوئی محب وطن نہیں۔ آج بھی یہ سب لوگ تیار ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہمارے دبئی میں اور دنیا کے دیگر حصوں میں مقیم پاکستانیوں سے رابطے ہوئے ہیں، جیسے ہی حکومت کی طرف سے گرین سگنل ملتا ہے، ہم ماضی کی طرح اپنے اس فارمولے پر عمل شروع کر دیں گے۔ ڈالر پر سے کیپ ہٹانے کا بھی بہت زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ جیسے ہی ہم نے کیپ ہٹایا تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ہم نے اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کی ہے اور وہ دھڑا دھڑ پیسہ ملک میں بھیج رہے ہیں۔

اوورسیز پاکستانی چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے، وہ اور بھی پیسہ بھیجیں گے بس انہیں بلاوجہ کی سخت پالیسیوں کا خوف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پر تلواریں مت لٹکاو۔ ہمیں اعتماد، عزت اور وقار دو تو ہم اپنا سارا پیسہ پاکستان لے آئیں گے۔ ایک بار پھر بتاتا چلوں کہ Swap Arrangement کی پالیسی قانونی ہے اور پوری دنیا میں رائج ہے۔ اس میں سود نہیں دینا پڑتا۔ صرف رقم کا فرق ادا کرنا ہوتا ہے۔

بیرون ملک اثاثے اور ڈالر رکھنے والے پاکستانیوں کے اعتماد سے متعلق سوال پر ملک بوستان کا کہنا تھا ’’ہمارے پاس ڈالر کی کمی نہیں ہے، مینجمنٹ کی کمی ہے۔ ہم نے ڈنڈا چلا کر اپنے ملک کی معیشت کا برا حال کیا ہے۔ میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتا ہوں۔ ہمارے ملک پر ایک سو دس ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے ،

جبکہ پچھلے تیس برس میں ملک سے ایک سو اسّی ارب ڈالر باہر گئے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے پاس فارن ایکسچینج کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایک سو اسّی ارب ڈالر کی یہ وہ رقم ہے جو آن ریکارڈ ہے یعنی قانونی بینکنگ چینل سے ہمارے لوگوں نے یہ ڈالر باہر بھیجے ۔ یہ سارا ڈیٹا اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ہے۔ ہنڈی کے ذریعہ جو اربوں ڈالر بیرون ملک گئے، وہ الگ ہیں۔ اس رقم کا اگرچہ کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا لیکن جس طرح خبریں آتی رہتی ہیں کہ ہمارے لوگوں نے اپنے پیسے کو بیرون ملک جائیدادوں اور پراپرٹی کی شکل میں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ بڑی تعداد میں ڈالر بھی غیر ملکی بینکوں میں رکھے ہوئے ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ رقم پانچ سو ارب ڈالر کے قریب بنتی ہے۔

دو سو ارب ڈالر کی نشاندہی تو دو ہزار سولہ میں خود وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسمبلی کے فلور پر کی تھی، جو اس وقت بھی وزیر خزانہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کے دوسو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں اور یہ کہ ہماری سوئس حکام سے بات ہو گئی ہے۔ جلد ہی اس پیسے کو واپس لایا جائے گا۔ لیکن پھر نون لیگ کی حکومت چلی گئی اور آج تک اس پر عمل نہیں ہو سکا ۔‘‘ ملک بوستان کے مطابق پاکستانیوں نے اتنی بڑی تعداد میں ڈالر بیرون ملک اس لئے بھیجے کہ زیادہ تر لوگو خوف زدہ تھے۔

ان لوگوں کو یہاں ایف بی آر کے نوٹس آتے تھے۔ پوچھا جاتا تھا کہ یہ ڈالر آپ کے پاس کہاں سے آئے ہیں، کس نے دیے ہیں۔ چنانچہ لوگوں نے ڈر کی وجہ سے اپنے پیسے باہر منتقل کرنا شروع کر دیے۔ یہ بے وقوفانہ پالیسی تھی۔ ابھی حال ہی میں جو میٹنگ ہوئی ہے۔ اس میں بھی میں نے سمجھایا ہے کہ ڈنڈے کے ذریعہ مارکیٹ نہیں چلا کرتی۔ کیپیٹل (سرمایہ) اور ہوا کا رخ کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ دونوں اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ کیپیٹل کو روکنے کے لیے اعتماد دینا پڑتا ہے۔ یہاں خوف نہ ہو تو لوگ اپنا پیسہ کیوں باہر لے کے جائیں۔

اس سوال پر کہ تاحال حکومت نے آپ کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے منظوری نہیں دی ہے۔ جب آپ کی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور دیگر متعلقہ لوگوں سے ملاقات ہوئی تو کیا وہ کنوینس نظر آ رہے تھے اور مطمئن تھے؟ کیا ان کی باڈی لینگویج سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ آپ کی تجویز پر عمل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں؟ ملک بوستان نے بتایا کہ وزیر خزانہ بالکل کنوینس ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں صرف زبانی دعوے نہیں کر رہا، بلکہ یہ سب کچھ میں ماضی میں انہیں کر کے دکھا چکا ہوں ۔ جس کی تفصیل میں بتاچکا ہوں۔

ملک بوستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل میں ڈالر کی عالمی اجارہ داری ختم ہونے جارہی ہے۔ ان کے بقول وہ وقت آنے والا ہے کہ لوگ ڈالر لے کر گھومیں گے لیکن کوئی خریدے گا نہیں۔ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ملک بوستان نے بتایا ’’دنیا بھر کے ممالک اپنی مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت کی طرف جارہے ہیں۔ حال ہی میں بھارت نے روس سمیت اٹھارہ ممالک کے ساتھ لوکل کرنسی میں تجارت کا معاہدہ کیا ہے۔ اسی طرح چین سمیت دیگر پینتیس ممالک چینی کرنسی میں تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں بات چیت جاری ہے۔ بہت جلد معاہدے کا اعلان متوقع ہے۔ اگر یہ اعلان ہوگیا تو اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں ڈالر کی ویلیو ساٹھ فیصد تک رہ جائے گی۔ اور اگر یہ معاہدہ کامیاب ہوگیا تو دنیا کے دیگر ممالک بھی مقامی کرنسیوں میں باہمی تجارت کا طریقہ کار اپنالیں گے۔