گرمیوں کی شدت میں کیمیکل والی مٹھائی کے سائیڈ افیکٹ زیادہ ہوتے ہیں۔فائل فوٹو
گرمیوں کی شدت میں کیمیکل والی مٹھائی کے سائیڈ افیکٹ زیادہ ہوتے ہیں۔فائل فوٹو

کراچی میں کیمیکل سے تیار جعلی مٹھائیوں کی بھرمار

اقبال اعوان :
مٹھائیاں مہنگی ہونے پر کراچی کے شہری کیمیکل سے تیار جعلی مٹھائیوں پر گزارا کریں گے۔ کوالٹی کنٹرول اور دیگر سرکاری اداروں کی سرپرستی میں شہر میں جعلی مٹھائیوں کے 3 ہزار سے زائد اسٹالز لگ گئے۔ گلاب جامن، چم چم کے بعد برفی، کھوپرے والی اور دیگر مٹھائیاں بھی کیمیکل سے تیار کی جا رہی ہیں۔

شہری جو تقریبات میں بھی سستی مٹھائیاں خریدتے رہے ہیں۔ اس عید پر بھی 300 روپے کلو والی مٹھائی خریدیں گے۔ جبکہ اصلی اور ذائقہ والی مٹھائیاں 1200 روپے سے 1500 روپے کلو تک مل رہی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کیمیکل ملی مٹھائیوں سے معدہ، گردے اور دل کے امراض بڑھنے کا خدشہ ہے۔ گرمیوں کی شدت میں کیمیکل والی مٹھائی کے سائیڈ افیکٹ زیادہ ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ عیدالفطر کو میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے۔ شہری دیگر پکوان بنوانے کے ساتھ ساتھ مہمانوں کی خاطر تواضع کیلئے بازار سے مختلف اقسام کی مٹھائیاں بھی لے کر آتے ہیں۔ شہر میں عید کے حوالے سے مٹھائی کی دکان والے اضافی مٹھائیاں تیار کرتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ جس قسم کی مٹھائی زیدہ پسند کی جاتی ہے اور خریدی جاتی ہے، اسے زیادہ تیار کیا جائے۔ عید کے ایک روز قبل مٹھائی والے دکان کے آگے باقاعدہ ٹینٹ لگا کر اسٹال پر مٹھائیوں کو سجاتے اور وسیع پیمانے پر کاروبار ہوتا تھا۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران گھی ساڑھے 6 سو روپے کلو، میدہ 170 روپے کلو، شکر 125 روپے کلو، فوڈز کلرز، میوہ جات، کھویا اور دیگر اشیا مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ جس پر مٹھائی جو 5 سال قبل تک 500 روپے کلو تک تھی۔ اب 1200 سے 1500 روپے کلو تک جا پہنچی ہے۔ جبکہ بجلی کے بل الگ بڑھتے جارہے ہیں۔ کاریگروں کی اجرت اور دکان کے دیگر اخراجات دن بدن بڑھ چکے ہیں اور مہنگائی ہونے پر شہریوں نے گلاب جامن، چم چم، برفی، حبشی حلوہ، سوھن حلوہ، پتیسہ، قلاقند اور دیگر مٹھائیاں خریدنا کم کر دیں۔ اس طرح شہری مٹھائی کی اصل لذت سے محروم ہوتے گئے اور منافع خوروں نے شہر میں مٹھائی کے اہم جز شکر کی جگہ سکرین کا استعمال شروع کر دیا۔ پہلے گلاب جامن کتھئی اور کالی، جبکہ چم چم سفید رنگ میں بنوا کر فروخت کا سلسلہ شروع کردیا۔ جبکہ یہ مٹھائیاں 300 روپے کلو تک مل رہی ہیں۔

شہر میں کچھ بھی فروخت کرو۔ اگر پولیس، کوالٹی کنٹرول اور دیگر اداروں سے سیٹنگ کرلی تو مسئلہ حل ہو گیا اور پھر بھتہ ادا کر کے دھڑلے سے فروخت کرو۔ مٹھائی کے کاریگروں کا کہنا ہے کہ سکرین جو پیٹرولیم مصنوعات میں شامل ہے اور بہت زیادہ مٹھائی پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح اراروٹ، گلوکوز، سستی اشیا کا استعمال، مضر صحت ہڈیوں، چربیوں کا تیل، چم چم کو سفید رکھنے کے لیے سرف ایکسل کا استعمال عام۔ ظاہر ہے کہ اس پر کم لاگت بھی آرہی ہے۔ لہذا منافع خور 300 روپے کلو تک مٹھائی فروخت کر رہے ہیں تو اپنا منافع بھی ضرور رکھتے ہوں گے۔شہر میں مذہبی تقریبات، سیاسی تقریبات، شادی بیاہ، شادی ہالز میں مہندی کی تقریب میں گلاب جامن ان دکانوں سے لے کر کھلائے جاتے ہیں۔ اس طرح اصل مٹھائی کا استعمال 20 سے 25 فیصد رہ گیا ہے۔

دکانداروں کا کہنا ہے کہ عید پر بھی کم مٹھائی اصل والی اور زیادہ تر نقل اور کیمیکل والی فروخت ہو گی۔ شہر میں مارکیٹوں، بازاروں، سڑک کنارے، چوراہوں پر نقلی مٹھائی کے اسٹالز، ٹھیلے لگے ہیں اور کائونٹر والی دکانوں پر بھی فروخت ہو رہی ہیں۔ جعلی مٹھائی کے یہ کارخانے لائنز ایریا، کورنگی، لانڈھی، ملیر، اورنگی اور لیاقت آباد میں زیادہ چل رہے ہیں اور سوزوکی پر پلاسٹک کی ڈھکن والی بالٹیوں میں مٹھائی دکانوں پر سپلائی کی جاتی ہے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر شعیب کا کہنا ہے کہ سکرین، سرف ایکسل، اراروٹ، سستے فوڈ کلرز، ایسنس کی خوشبو اور دیگر کیمیکل انسانی جسم کو اندر سے شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان سے معدہ، جگر، گردہ، دل، زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ حکومت کے ادارے بالخصوص کوالٹی کنٹرول، سندھ فوڈز اتھارٹی اور دیگر اس پر توجہ دیں۔ شہر میں دل کے طرح طرح کے امراض پہلے ہی بہت بڑھ رہے ہیں۔ شہری مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہوکر سستی مٹھائی خرید رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ شہری اصل مٹھائیوں کے ذائقے اور لذت کو بھول چکے ہیں۔