لسٹ میں قابلِ ذکر تبدیلیوں کا کوئی امکان نہیں ،فائل فوٹو
 لسٹ میں قابلِ ذکر تبدیلیوں کا کوئی امکان نہیں ،فائل فوٹو

عمران خان نے باغیوں کیخلاف ٹائیگر فورس اتار دی

نواز طاہر :
پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے لیے تحریکِ انصاف کی طرف سے جاری کیے جانے والے ٹکٹوں پر رہنمائوں اور کارکنوں کے شدید ردِ عمل اور احتجاج کے بعد عمران خان کی قیادت میں اعلان کردہ نظر ثانی کمیٹی آج بدھ کو فیصلوں کا اعلان کرنے والی ہے۔ تاہم اس میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی کا امکان ظاہر نہیں کیا جارہا۔ جس کے بعد پارٹی میں بغاوت مزید کھل کر سامنے آنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جبکہ احتجاج کرنے والوں کو ’ باغی‘ قرار دیئے جانے کے بعد ٹکٹ لینے کے کچھ امیدوار گفتگو میں قدرے محتاط ہوگئے ہیں۔ لیکن ریویو کمیٹی کے فیصلے کے اعلان کے بعد ان کی جانب سے احتجاج کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب عمران خان کے حکم پر، احتجاج کرنے والے کیخلاف ’ٹائیگر فورس‘ کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ تحریکِ انصاف نے عیدالفطر سے پہلے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے لیے پارٹی ٹکٹ جاری کیے تھے۔ جس میں بیشتر سینئر کارکنوں اور مقامی رہنمائوں کو اچانک نظر انداز کیے جانے پر ایک جانب بڑے سوالات اٹھے، تو دوسری طرف ٹکٹوں کے اجرا میں کروڑوں روپے کی ’کمائی ‘ کے چرچے بھی عام ہوئے۔ خاص طور پر غیر متحرک و پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اچانک ٹکٹ دیئے جانے پر بھی ردِ عمل سامنے آیا تھا۔ یہ الزامات بھی سامنے آئے، جن کی بازگشت میڈیا کے ساتھ ساتھ زمان پارک میں بھی جاری ہے کہ ٹکٹوں کے اجرا میں پیسے کا ’جھرلو‘ چل گیا ہے۔ اقربا پروری کی گئی ہے اور ’پیرا شوٹرز‘ کے مقابلے میں قربانیاں دینے والوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے سب سے بڑے سیاسی پلیٹ فارم ’سوشل میڈیا‘ پر بھی نظر انداز ہونے والوں نے صوبے کے چاروں کونوں سے واویلا کیا تو عمران خان نے اشک شوئی کے لیے نظر ثانی کمیٹی کا اعلان کردیا۔ لیکن اس کے باوجود ٹکٹ نہ ملنے پر دلبرداشتہ کارکنان و عہدیداران نے عمران خان کے آبائی گھر زمان پارک میں مظاہرے کیے۔

ایسے ہی ایک مظاہرے کے دوران عمران خان کی رہائش گاہ کے قریب سروس روڈ پر لگایا جانے والا عارضی آہنی گیٹ بھی توڑ دیا گیا۔ جس پر عمران خان نے احتجاج کرنے والوں میں سے چار لوگوں کے وفد سے ملاقات کی اور ان کا کیس محض معاملہ دبانے کیلئے نظر ثانی کمیٹی کو بھجوا دیا۔ جبکہ اسی دوران احتجاج رکوانے کیلئے عمران خان کے ڈنڈا بردار ’ٹائیگرز‘ متحرک کر دیے گئے ہیں جو مختلف اوقات میں وہاں ’باغیوں‘ کیخلاف نعرے لگاتے ہوئے پورے علاقے میں گشت کر رہے ہیں۔

ان ’ٹائیگرز‘ کی وجہ سے پیر کے بعد وہاں کسی کو مظاہرہ نہیں کرنے دیا گیا۔ جبکہ مظاہرہ اور احتجاج کرنے والوں کو عمران خان کا ’باغی‘ بھی قراردیا جارہا ہے۔ جبکہ نظر ثانی کمیٹی میں اس احتجاج کو بھی منفی پوائنٹس میں شمار کیا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جو لوگ عمران خان کے فیصلے سے بغاوت کررہے ہیں۔ وہ پارٹی ڈسپلن اور خاص طور پر خان کے فیصلے کی نفی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اور آنے والے دنوں میں بھی یہ پارٹی فیصلوں کے خلاف ایسے عمل کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی ذرائع نے تصدیق کی کہ وسطی، شمالی اور مغربی پنجاب کے ساتھ ساتھ مشرقی پنجاب (لاہور) سے اٹھنے والی آوازوں کو عمران خان نے کوئی لفٹ نہیں کروائی، جن میں کئی بار پارٹیاں تبدیل کرنے والا منظور وٹو خاندان بھی قابلِ ذکر ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان کے ٹکٹوں کے فیصلوں پر سب سے پہلے وٹو خاندان نے ہی کھل کر علمِ بغاوت بلند کیا تھا اور اب وہ آزاد امیدواروں کا پینل بنا کر عمران خان کے نامزد امیدواروں کے مقابلے کا اعلان کر چکا ہے۔ یہ اعلان سابق وزیراعلیٰ میاں منطور احمد وٹو کے صاحبزادے میاں معظم وٹو نے کیا ہے۔

ان کے آبائی گائوں وساوے والا (ضلع اوکاڑہ) سے تعلق رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ عمران خان درحقیقت وٹو خاندان کی سیاست ختم کرنے کے درپے ہیں اور اب سیاسی بقا کیلئے عمران خان سے مقابلہ ناگزیر ہوگیا ہے۔ زمان پارک میں نظر ثانی کمیٹی کے اجلاس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کوئی باقاعدہ اجلاس نہیں ہو رہا۔ البتہ کچھ لوگوں کے بارے میں عمران خان مشورہ ضرور کر رہے ہیں اور جن سے مشورے کیے جارہے ہیں۔ انہی کے بارے میں نظرانداز کیے جانے والے امیدواروں کو شکایات ہیں۔

ذرائع نے امکان ظاہر کیا کہ دو سے تین نشستوں پر کمیٹی فیس سیونگ کیلئے فیصلوں پر نظر ثانی کرلے گی۔ ان ذرائع کے مطابق پی پی چوراسی سے گل اصغر بگھور کا ٹکٹ بھی اسی میں شامل ہوسکتا ہے اور ان کی جگہ خالد مگسی کو ٹکٹ جاری کیا جاسکتا ہے۔ جنہیں اس بار نظر انداز کیا گیا۔ جبکہ گزشتہ الیکشن میں انہوں نے حریف امیدوار کا بھرپورمقابلہ کیا تھا اور یہ بلوچ قبیلے کی آبائی سیاست کا گڑھ بھی ہے۔ لیکن خالد مگسی پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے پارٹی قیادت کے حکم کی تعمیل میں وہاں نسل در نسل آباد اپنے آباد کار ووٹرز سے سرکاری اراضی کا قبضہ نہیں چھڑوایا تھا۔ جبکہ یہ قبضہ چھڑوا کر ایک اہم شخصیت نے حاصل کرنا تھا۔

اس کی روئیداد یہ بتائی جاتی ہے کہ قبضہ چھڑانے سے یہ آباد کار بے دخل ہوجاتے اور بلوچ قبیلے کی سیاست کو بُری طرح دھچکا لگ سکتا تھا۔ جبکہ زمین کی الاٹمنٹ میں بھی انہی آباد کاروں کا پہلا حق تھا، جو انہیں نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس عمران خان نے ملٹری فارمز کے مزارعین کے رہنما مہر عبدالستار کو اسی بنیاد پر پارٹی کا ٹکٹ جاری کیا کہ مزارعین کے بڑی تعداد میں ووٹ خراب ہونے سے بچ سکیں۔

خالد مگسی کے برعکس جس امیدوار کو ٹکٹ جاری کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے ماضی میں پارٹی کے فیصلوں کی نہ صرف خلاف ورزی کی بلکہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ’ن‘ کے امیدوار وارث کلو (مرحوم) کی کامیابی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اور ان کے انتقال کے بعد ضمنی الیکشن میں ان کے بیٹے شیر معظم کی کامیابی میں بھی معاونت کی تھی۔ لیکن مبینہ طور پر ’’لین دین‘‘ کے نتیجے میں پارٹی ٹکٹ حاصل کرلیا۔

فیصل آباد میں بھی ایک دیرینہ پی ٹی آئی کارکن اور ماضی میں پارٹی کیلیے واضح ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو بھی نظر انداز کرکے ایک ایسے امیدوار کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے پی ٹی آئی کی حکومت میں اطلاعات کے وزیر مملکت فرخ حبیب کی ’معاونت‘ سے ٹکٹ جاری کیا گیا۔ ایسی ہی داستان پی پی ایک سو ساٹھ لاہور کی ہے۔ یہاں حیدر مجید کو گزشتہ الیکشن میں نون لیگی امیدواروں کا بھرپور مقابلہ کرنے والے امیدوار پر ترجیح دی گئی ہے۔ یہاں سے جس امیدوار کو ٹکٹ جاری کیا گیا۔ اس کا تعلق عمران خان کے عزیز حسان نیازی کے قریبی حلقے سے ہے۔

نظرانداز کیے جانے والے کچھ امیدواروں نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں بتایا کہ ان کی حق تلفی ہوئی ہے۔ لیکن لگتا ہے پی ٹی آئی کے اندر مسلم لیگ ’ن‘ کے حمایتی موجود ہیں جو الیکشن میں نشستیں خراب کروانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ وہ پارٹی کے فیصلے کے مطابق الیکشن مہم چلائیں گے۔ لیکن بہت سے ووٹ خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان امیدواروں کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دل برداشہ ہیں اور پارٹی کی نظر ثانی کمیٹی کے فیصلے کے اعلان کے بعد ردِ عمل سامنے لائیں گے۔ جس میں جنوبی پنجاب اور خاص طور پر سابق ریاست بہاولپور کے علاقوں میں بغاوت ہوسکتی ہے۔