اسلام آباد (اسٹاف رپورٹر)پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH) نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے میٹھے مشروبات کے صحت اور معیشت پر ہونے(باقی صفحہ7بقیہ نمبر28)
والے نقصانات کے حوالے سے ایک ریلی کا انعقاد کیا۔ مہمانوں میں میجر جنرل (ر) مسعود الرحمان کیانی، صدر پناہ، منور حسین، کنسلٹنٹ فوڈ پالیسی پروگرام گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر، افضل بٹ، صدر پاکستان یونین آف جرنلسٹس، ڈاکٹر عبدلقیوم اعوان، وائس پریزیدنٹ پناہ، مولانا حافظ محمد اقبال رضوی، ضلعی خطیب اور چیئرمین امن کمیٹی، عبدالحفیظ، سابق کمشنر، سول سوسائٹی کے نمائندوں، میڈیا، طلباء اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ تقریب کی میزبانی ثناء اللہ گھمن، جنرل سیکرٹری پناہ نے کی۔ طلباء نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ انڈسٹری کے مفاد کی بجائے بچوں کی صحت کو ترجیح دے اور ان غیر صحت بخش مشروبات پر ٹیکس بڑھا کر بچوں کی صحت کو بچائے۔ جنرل مسعود الرحمان کیانی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میٹھے مشروبات کا زیادہ استعمال خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے موٹاپے، دل کے امراض ٹائپ ٹو ذیابیطس، کئی قسم کے کینسر، گردے اور جگر کے امراض کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان پچھلے 10 سال کے دوران ذیابیطس کی شرح نمو کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان 2021 میں ذیابیطس کے ساتھ زندہ رہنے والے33 ملین افراد کے ساتھ عالمی سطح پر تیسرے نمبر پر ہے۔ اگر فوری طور پر کوئی پالیسی اقدامات نہ کیے گئے تو 2045 تک ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد بڑھ کر 62 ملین ہو جائے گی۔منور حسین نے کہا کہ میٹھے مشروبات کا زیادہ استعمال ملک میں صحت اور معیشت کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ ہے۔ PIDE کے 2015 کے تخمینہ کے مطابق پاکستان میں موٹاپے کے علاج معالجے پر لاگت 428 ارب روپے تھی۔ اسی طرح انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق، 2021 میں پاکستان میں ذیابیطس کے انتظام کی سالانہ لاگت 2640 ملین امریکی ڈالر تک بڑھ گئی ہے۔ میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھانا حکومت کی تین طرح سے جیت ہے۔ ٹیکس بڑھانے میں حکومت کے کوئی اخراجات نہیں آتے، بیماری کے بوجھ اور ہسپتال کے اخراجات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے، اور آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور وزیر صحت سے درخواست کی کہ وہ تمام میٹھے مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) کو 2023-24 کے بجٹ میں کم از کم 50 فیصد تک بڑھا دیں۔ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ مشروبات کی صنعت ہر قدم پر پالیسی سازوں کو گمراہ کر رہی ہے اور پالیسی کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ آج صحت کے ماہرین، سول سوسائٹی، اساتذہ، طلباء، میڈیا حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان صحت عامہ کو مشروبات کی صنعت کے مفادات پر ترجیح نہ دے۔دیگر مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بجٹ میں میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھائے اور اس ریونیو کو صحت مند غذا پر سبسڈی دینے کے لیے استعمال کرے۔