امت رپورٹ :
اتحادی حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان نے فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب الیکشن کیس میں اگر سپریم کورٹ اپنی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے توہین عدالت کے نوٹسز جاری کرتی ہے تو وہ عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے جواز یہی بنایا جائے گا کہ اتحادی حکومت اور پارلیمنٹ اسی کیس میں تین دو کے فیصلے کو نہیں بلکہ چار تین کے فیصلے کو مانتی ہے، لہٰذا تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہونا نہیں بنتا۔
واضح رہے کہ 27 اپریل کو پنجاب الیکشن کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ عدالت، مذاکرات پر مجبور نہیں کر سکتی ہے، صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تاکہ تنازعہ کا حل نکلے۔ سپریم کورٹ کوئی ڈیڈ لائن نہیں دے رہی، سماعت کا مناسب حکم بعد میں جاری کیا جائے گا۔ تاہم حیرت انگیز طور پر پر تین روز گزر جانے کے باوجود اب تک 27 اپریل کی عدالتی کارروائی کی آرڈر شیٹ جاری نہیں کی گئی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب الیکشن کے لیے ایک تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اتحادی حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات جاری ہیں تو دوسری جانب دونوں فریقوں کی طرف سے متبادل حکمت عملی بھی تیار کی جا رہی ہے۔ کیونکہ واقفان حال کے بقول ان مذاکرات کی کامیابی کا امکان معدوم ہے۔ اسی طرح 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد بھی ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق ایسی صورت میں سپریم کورٹ کے پاس تین آپشن ہیں۔ ایک یہ کہ عدالت کی حکم عدولی پر پوری پارلیمنٹ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے جو زیادہ قابل عمل دکھائی نہیں دیتا۔ یا پھر وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے تمام ارکان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز ہو اور تیسرا آپشن صرف وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا ہے۔ بیشتر قانونی ماہرین کے بقول اگر سپریم کورٹ اپنے حکم کی خلاف ورزی پر توہین کی کارروائی کا فیصلہ کر لیتی ہے تو پھر تیسرے آپشن کو اختیار کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
پی ڈی ایم کے اندرونی ذرائع کے بقول اتحادی بھی اس ساری ڈویلپمنٹ پر نظر جمائے ہوئے ہیں اور اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کے ساتھ انہوں نے بیان کردہ ممکنہ صورت حال کو کاؤنٹر کرنے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت اگر سپریم کورٹ توہین کی کارروائی شروع کر دیتی ہے اور وزیراعظم اور متذکرہ وزرا کو توہین عدالت کا نوٹس بھیجا جاتا ہے تو کوئی اس نوٹس کی تعمیل نہیں کرے گا۔ یعنی آنے والے دنوں میں عدالت اور حکومت کے مابین جاری تنازعہ ایک بڑے تصادم کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق اتحادیوں کی قانونی ٹیم کی انڈر اسٹینڈنگ ہے کہ ملزم کی عدم موجودگی میں فرد جرم عائد نہیں کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا توہین کی کارروائی شروع ہونے کی صورت میں عدالتی طلبی کے باوجود اگر وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر متعلقہ وزرا پیش نہیں ہوتے تو ان پر فرد جرم عائد نہیں کی جا سکے گی۔ جیسا کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی عدم پیشی کے باعث ان پر فرد جرم عائد نہیں ہو پارہی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں یوسف رضا گیلانی کو بھی سپریم کورٹ میں ان کی موجودگی کے دوران عدالت برخاست ہونے تک کی سزا سنائی گئی تھی۔ یوں وہ پانچ برس کے لیے نااہل ہو گئے تھے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اتحادیوں کی حکمت عملی یہ ہے کہ ایسا موقع آنے نہ دیا جائے۔ یعنی وزیراعظم اور متعلقہ وزرا عدالت کا رخ ہی نہ کریں۔ جبکہ اپنے احکامات یا فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے لیے سپریم کورٹ کے پاس اپنی پولیس یا فورس موجود نہیں۔ احکامات پر عملدرآمد کے لیے عدالت کا انحصار حکومتی مشینری پر ہوتا ہے۔
ادھر نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ اتحادیوں کے ساتھ مشاورت سے توہین کی کارروائی میں پیش نہ ہونے کی حکمت عملی تو اپنائی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ اگر وزیراعظم اور ان کے کابینہ ارکان کو توہین کے نوٹسز جاری ہوتے ہیں تو اس کے جواب میں پارلیمنٹ کی استحقاق کمیٹی بھی تین رکنی بنچ کے ارکان کو طلب کرے گی۔ یعنی بیک فٹ پر جانے کے بجائے جارحانہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔
ان ذرائع کے بقول بفرض محال توہین کی کارروائی میں وزیراعظم اور ان کے کابینہ ارکان پھر بھی کسی صورت نااہلی کا شکار ہو جاتے ہیں تو اس کے لیے بھی وزیراعظم شہباز شریف اور کابینہ ارکان ذہنی طور پر تیار ہیں۔ ذرائع کے بقول اس صورت میں بھی اتحادیوں کو یقین ہے کہ اگر وزیراعظم اور کابینہ ارکان کو نااہل قرار دیا جاتا ہے تو ستمبر میں چیف جسٹس پاکستان کے ریٹائر ہو جانے کے بعد سیناریو تبدیل ہو جائے گا اور اپیل کے ذریعے نااہلی ختم کرالی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق تاہم وزیراعظم اور ان کے کابینہ ارکان یہ دوٹوک فیصلہ کر چکے ہیں کہ پنجاب الیکشن کیس میں اختیار کردہ مؤقف سے کسی طور پر پیچھے نہیں ہٹا جائے گا بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے بھرپور مزاحمت کی جائے گی اور یہ فیصلہ تمام اتحادی پارٹیوں کی مشاورت سے کیا گیا ہے۔