کراچی(اسٹاف رپورٹر)روز اول سے تنازعات سے بھرپور ڈیجیٹل مردم شماری اب سرکاری سطح پر ڈانواں ڈول ہونا شروع ہو گئی۔ساتھ ہی اس معاملے پر حکومتی اتحاد خصوصا پیپلزپارٹی اور متحدہ کے درمیان بھی رسہ کشی نو رٹرن تک بڑھ سکتی ہے کراچی،حیدرآباد،کوئٹہ،راولپنڈی سمیت بعض شہروں میں مردم شماری کا عمل جاری رہنے اور اندرون سندھ کے باقی اضلاع میں مردم شماری کا کام مکمل ہونے کے نام ختم کرنے پر وزیر اعلیٰ سندھ نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال کو گزشتہ روز لیٹر ارسال کردیا ہے۔جس میں تحفظات دور نہ ہونے کی صورت میں مردم شماری کے نتائج مسترد کرنے کا انتباہ کردیا ہے اورسندھ کے دیہی علاقوں میں بھی مردم شماری میں توسیع کا مطالبہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال کوارسال کردہ خط میں وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے پیغام دیا ہےکہ تحفظات دور نہیں ہوئے تو مردم شماری کے نتائج حکومت اور سندھ کے شہریوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے۔وزیراعلیٰ سندھ نے وزیرمنصوبہ بندی سے کہا ہے کہ آپ کی سربراہی میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری ان تحصیلوں،تعلقوں میں 30 اپریل کو ختم کی جارہی ہے جہاں آبادی مردم شماری کے دوران ایک مخصوص سطح پر آگئی ہے، ہمیں ان تحصیلوں ،تعلقوں میں آبادی فریز کرنے کے فیصلے پر سخت تحفظات ہیں اگر اس طرح کا بینچ مارک عالمی طور پر لاگو ہوتا تو مردم شماری کرانے کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ آبادی میں اضافے کا اندازہ اس معیار کی بنیاد پر آسانی سے لگایا جا سکتا تھا۔
مراد علی شاہ کا خط میں کہنا ہے کہ ہمارے تحفظات نہیں سنے جا رہے، اور اگر تحفظات دور نہیں ہوئے تو مردم شماری کے نتائج حکومت اور سندھ کے شہریوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے، نتائج کو یکسر مسترد کردیا جائے گا۔وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی وزیرمنصوبہ بندی سے مطالبہ کیا کہ سندھ کے تمام اضلاع میں مردم شماری اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک کہ ہر گھر اور ہر فرد شمار نہیں ہوجاتا۔دوسری جانب گزشتہ روز وزیراعلی سندھ کے مشیر برائے قانون و ترجمان سندھ حکومت بیرسٹرمرتضی وہاب نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ پرمردم شماری میں ہیرپھیرکا الزام غلط ہے،سندھ حکومت کےملازمین مردم شماری میں وفاقی ادارے کی صرف معاونت کرتےہیں،احمقانہ بیانات دینے سےپہلے اسدعمر اسسٹنٹ کمشنرز سےپوچھ لیں،مردم شماری کےریکارڈ تک سندھ کےچیف سیکریٹری کو بھی رسائی نہیں ہے،اگر 2017کی متنازعہ مردم شماری منظور نہ ہوتی تو آج گنتی کا مسئلہ نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ حقائق کو مسخ کرنےکی کوشش کرتےہیں، 2017کی متنازعہ مردم شماری منظور کروائی گئی،متنازعہ مردم شماری کو اسلام آباد میں ان ہی لوگوں نےمنظور کرایا جو گروہ عمران خان کی انا پوری کررہاہے،استعفے دیکر اسمبلی سےمراعات لیتےہیں۔انہوں نے کہاکہ چئیرمین بلاول بھٹو نےچھ مارچ کو کہہ دیاتھا کہ مردم شماری شفاف نہ ہوئی تو حکومت چھوڑ دیں گے۔انہوں کہا کہ 2017میں وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ نےمردم شماری کو سی سی آئی میں چیلنج کیا،وزیراعلیٰ سندھ نےاعتراض اٹھایاتھاکہ سندھ کی آبادی کو درست شمار نہیں کیاگیا،دوہزار سترہ میں پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ کی وجہ سےمتنازعہ مردم شماری منظور نہیں ہوئی،عمران خان حکومت میں بھی 2017کی متنازعہ مردم شماری پر وزیراعلیٰ نےاعتراض اٹھایا،سی سی آِئی میں ایک طرف پی ٹی آئی، ایم کیوایم، جی ڈی اےکےنمائندےتھے،وزیراعلیٰ سندھ کےاعتراضات پر علی زیدی امین الحق فہمیدہ مرزا پر مشتمل کمیٹی بنی،اس کمیٹی نےمتنازعہ مردم شماری کو منظور کرنےکا فیصلہ کیا۔
مرتضی ٰوہاب نے کہاکہ 2017کی پارلیمان سےمنظوری کےخلاف پیپلزپارٹی نےآواز اٹھائی،پیپلز پارٹی نے اپنی اپیل پارلیمان کو بھجوائی اور مشترکہ اجلاس پارلیمان کا منعقد ہوا،پیپلز پارٹی نے اجلاس میں بھرپور احتجاج کیا ،متنازع سینسز کو پارلیمان سے منظور کروایا گیا ،اس پارلیمان میں جی ڈی اے، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی بھی شامل تھی ،پی ٹی آئی نے لولی پاپ دی کہ اگلی مردم شماری ڈیجیٹل کروائیں گے ،متنازعہ مردم شماری پارلیمان سےمنظور کرانےپر پی ٹی آئی ایم کیوایم جماعت اسلامی خاموش رہی ،اسدعمر وفاقی وزیر رہےیا تو غلط بیانی کررہےتھےیا احمق ہیں،کہتےہیں کہ مردم شماری صوبائی حکومت کرتی ہے،مردم شماری ریکارڈ کو اکٹھا وفاقی ادارہ شماریات کرتاہے۔انہوں نے کہاکہ ایسے بیانات دینے سےپہلے اسدعمر اسسٹنٹ کمشنرز سےپوچھ لیں،مردم شماری کےریکارڈ تک سندھ کےچیف سیکریٹری کو رسائی نہیں،بار بار کہاکہ مردم شماری متنازعہ نہ ہو،اسدعمر نہ جانے کراچی میں شمار ہوئے یا اسلام آباد میں ہوئے،عجیب فیصلہ آج ہوا کہ اگر کسی تحصیل میں شرح اضافہ ڈیڑھ فیصد ہوچکا وہاں مردم شماری روک دی جائے۔
انہوں نے کہاکہ وزیراعلی سندھ نے10اپریل کو مردم شماری پر احسن اقبال کو خط لکھا اوراپنے تحفظات بیان کیے،دس مارچ، تین مارچ کو بھی خط لکھا احسن اقبال کو ،وزیر اعلی سندھ نے وزیر اعظم کو بھی خط لکھے۔ انہوں نے کہاکہ ڈیجیٹل سینسز کرانے کا فیصلہ پی ٹی آئی نے کیا ،ٹیبلٹ کا کوئی پروف ریکارڈ چیف سیکریٹری یہ متعلقہ اے سی کے پاس نہیں ہیں ،اسد عمر ان افسران سے پوچھ لیں ، احمقانہ بیان دینے سے پہلے ،جو ریکارڈ اسلام آباد میں موجود ہے اس تک رسائی کسی صوبائی حکومت کے پاس نہیں ،جب یہ سینسز شروع ہوا تو پیپلز پارٹی نے اعتراض اٹھایا اسکے تمام تر خط موجود ہیں ،ہم نے بار بار کہا کہ مردم شماری ریکارڈ کی تین کاپیاں ہوں ،ایک کاپی جو اسلام آباد جائے، ایک کاپی چیف سیکرِیٹری اور متعلقہ اے سی کے پاس جائے تاکہ اسد عمر جیسے لوگ اس طرح کا بیان نہ دیں ۔ انہوں نے کہاکہ مردم شماری پرآج صبح بھی میٹنگ ہوئی وفاقی حکومت کی، اس میں فیصلہ ہوا کہ کسی تحصیل میں ڈیڑھ ، ڈیڑھ فیصد اضافہ ہوا تو وہاں مزید گنتی نہ ہو ۔
انہوں نے کہااسد عمر فرماتے ہیں کہ وِزیر اعلی اس وقت اعتراض کر رہے تھے ،پھر بولے کے مردم شماری صوبائی حکومت کرتی ہے ،بھائی کتنے بیوقوف ہیں،اتنا پتہ نہیں کہ ریکارڈ جمع کرکے اسلام آباد بھجوا دیا جاتا ہے ریکارڈ صوبہ جمع نہیں کرتا ادارہ شماریات کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ اگر 2017کی متنازعہ مردم شماری منظور نہ ہوتی آج مسئلہ نہیں ہوتا،ان کےقول و فعل میں تضاد ہے،بنیادی اور واضح بات ہےکہ جتنےافراد جہاں ہیں ان کو شمار کیاجائے،عوام جانتےہیں کہ کون مگرمچھ کےآنسو بہارہاہے کون عملی کام کررہاہے،ہمارے دبائو کےبعد ہی ہمیں شمار کرنے پر مجبور ہوئےہیں،تفریق اور حقائق کو مسخ کرنےکی سیاست نہ کریں،کوئی پوچھے علی زیدی سےکہ 2017کی متنازعہ مردم شماری کیوں منظور کی۔ مرتضی وہاب نے کہاکہ ،شفاف گنتی اور غیر جانبداری سےہر فرد کو شمار کیاجائےاب سب وہ ہی بات کررہے ہیں جو پیپلزپارٹی کررہی ہے،ہم حکومت میں ہیں ہمارا سب سےبڑا اسٹیک ہے،ہم تو چاہتےہیں کہ صوبےکی درست مردم شماری ہو،تفریق کی سیاست ختم کریں،سندھ سندھ ہےہمارا سندھ ہےصوبائی حکومت کےملازمین مردم شماری میں وفاقی ادارے کی صرف معاونت کرتےہیں۔
مردم شماری