اسلام آباد:سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو پارلیمانی اورقائمہ کمیٹی کی کارروائی کا ریکارڈ کل تک جمع کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت تین ہفتوں کیلیے ملتوی کردی گئی ۔دوران سماعت جسٹس مظاہرعلی نقوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست میں کی گئی استدعا پر تحفظات ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 8 رکنی بینچ ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل‘‘ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان روسٹرم پر آگئے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت نے قانون پر عملدرآمد سے روک رکھا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہاں جاتی؟ پارلیمنٹ کہتی ہے 5 رکنی بنچ ہو، اٹارنی جنرل کہتے ہیں فل کورٹ ہو،لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑ گئی ہے یہاں کتنے ججز بیٹھے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ فل کورٹ کی استدعا مناسب لگنے پرکی جا سکتی ہے،قانون میں کم سے کم 5 ججز کا لکھا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ 5 ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں؟۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے،ہائیکورٹ میں بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں،کیا ہائیکورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی ہے،جسٹس مظاہرعلی نقوی نے کہاکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے،2012 میں بھی اس نوعیت کامقدمہ سنا جا چکا ہے،جسٹس منیب اختر نے استفسار کیاکہ کیا ہائیکورٹ میں 60 اور سندھ ہائیکورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے؟
نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈپروسیجر بل کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہاکہ فل کورٹ تشکیل دینے کیلیے درخواست دائر کی ہے۔
مسلم لیگ ن نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کیلئے عدالت کو درخواست دیدی ،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آپ کی درخواست پر تو ابھی نمبر بھی نہیں لگا،پی ٹی آئی کی جانب سے فوادچودھری سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا، سپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیاہے،عدالت قراردے چکی آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے،عدلیہ آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے،قانون میں بنچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیاگیاہے،عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیاگیاہے،قانون میں جو معاملات طے کیے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں۔
منصور اعوان نے کہاکہ سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیئے تھے، سپریم کورٹ رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کر سکتی ہے، عدلیہ کی آزادی اور رولز سے فیصلہ و مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے،قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگوہو گا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے رولز میں ترمیم کا نہیں،جسٹس مظاہر نقوی نے کہاکہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ قانون سازی کے اختیار کے مقدمات مختلف بنچز معمول میں سنتے رہے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ1992 تک رولز بنانے کیلئے صدر کی اجازت درکارتھی،جسٹس مظاہر نقوی نے کہاکہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ صدر کی اجازت کااختیار واپس لے لیاگیا تھا،رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی،ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا اس لئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں،سپریم کورٹ کا کوئی بھی بنچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے،کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟رولز، آئین اور قانون کے تحت کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے یہ یقین کیسے ہو گا کہ کونساکیس فل کورٹ سنے؟کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ افتخار چودھری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ بظاہر آپ کا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنائی جائے،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آپ کیا کہناچاہ رہے ہیں عوام کاا عتماد فل کورٹ پر ہے،عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدلیہ کی آزادی کے تمام مقدمات فل کورٹ نے نہیں سنے،جسٹس مظاہر نقوی نے کہاکہ افتخار چوہدری کیس مختلف نوعیت کاتھا،جسٹس منیب اختر نے کاکہا کہ رولز بنانے کا اختیار فل کورٹ کوانتظامی امور میں ہے،3 رکنی بنچ کے سامنے رولز کی تشریح کا مقدمہ آ جائے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہئے،فل کورٹ اپنے رولز بنا چکی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ موجودہ کیس میں قانون سازی کااختیار چیلنج ہے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ کی منطق سمجھ سے باہر ہے ، فل کورٹ کا فیصلہ اچھا،3 رکنی بنچ کا برا ہوگا،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ کی منطق یہ ہے رولز فل کورٹ نے بنائے توتشریح بھی وہی کرے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ عدالتی اصلاحات بل کے مطابق 5 رکنی بنچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گا، یا تو آپ کہے پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایاہے۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت نے قانون پر عملدرآمد سے روک رکھا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہاں جاتی؟پارلیمنٹ کہتی ہے 5 رکنی بنچ ہو،اٹارنی جنرل کہتے ہیں فل کورٹ ہو،لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑ گئی ہے یہاں کتنے ججز بیٹھے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ فل کورٹ کی استدعا مناسب لگنے پر کی جا سکتی ہے،قانون میں کم سے کم 5 ججز کا لکھا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ5ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے،ہائیکورٹ میں بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں،کیا ہائیکورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی ہے۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہاکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے،2012 میں بھی اس نوعیت کامقدمہ سنا جا چکا ہے،جسٹس منیب اختر نے استفسار کیاکہ کیا ہائیکورٹ میں 60 اور سندھ ہائیکورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے؟۔