سجاد عباسی
ایک ایسے موقع پر جب عمران خان کی جارحانہ اور تصادم پر مبنی حکمت عملی کے جواب میں شہباز حکومت "نیم دروں ، نیم بروں” پالیسی کے تحت ڈانوال ڈول کیفیت میں ہے، جسے بعض تجزیہ کار’’ سکتے ‘‘ سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ فضل الرحمان کی قیادت میں پی ڈی ایم اتحاد ،حکومت کواس کیفیت سے نکالنے کیلئے میدان میں آگیا ہے اور پیر کے روز سپریم کورٹ کے باہر دھرنے کیلئے ملک بھر سے عوام کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دے دی ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اپنی ہی حکومت کے دور میں عوامی طاقت کے مظاہرے کی یہ جارحانہ حکمت عملی کس قدر کامیاب ہوگی، بالخصوص ایسے وقت میں جب دوصوبوں پنجاب اور کے پی کے علاوہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی آئین کے آرٹیکل245 کے تحت امن و امان کے قیام کیلئے فوج کی خدمات حاصل کی جا چکی ہے۔ ان حالات میں اگر حکومتی اتحاد کے تحت عوامی طاقت کے مظاہرے کے دوران فریق مخالف یعنی تحریک انصاف بھی میدان میں اترتی ہے اور خدانخواستہ تصادم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو خود حکومت اور ریاست کیلئے اس صورت حال کو قابو کرناکسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔
اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ماضی کے ملین مارچ کا حوالہ بھی دیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج پر امن ہوگا لیکن اگر کسی نے ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا تو مکے۔ روڑے اور ڈنڈے کا جواب متعلقہ ’’ اوزاروں‘‘ سے دیا جائے گا۔ بالفاظ دیگر اینٹ کا جواب پتھر سے ملے گا۔ ظاہر ہے ان کا مخاطب تحریک انصاف ہی تھی ۔ بلکہ زیادہ صراحت کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہماری صفوں میں موجود کسی شخص نے توڑ پھوڑ کی تو یہ طے شدہ بات ہے کہ وہ پی ٹی آئی کا شر پسند ہو گا جسے فوراً پکڑ لیا جائے گا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پی ڈی ایم قیادت نے یہ اعلان جمعہ کی شام اپنے اجلاس کے اختتام پر اس وقت کیا جب دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس جاری تھا۔ یہ اجلاس عین اس موقع پر ہو رہا تھا جب اسلام آباد ہائی کورٹ سے القادر ریفرنس میں دو ہفتے کی ضمانت حاصل کرنے کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان دیگر مقدمات میں گرفتار نہ کئے جانے کی دھڑادھڑ ضمانتیں حاصل کر رہے تھے۔ عمران خان اپنے وکلاء کے ساتھ کم و بیش دس گھنٹے تک کورٹ روم میں موجود تھے ۔ اس دوران عدالت کی جانب سے یہ حکم بھی آ چکا تھا کہ چیئرمین تحریک انصاف کو17 مئی تک کسی بھی پرانے یا نئے۔ معلوم یا نا معلوم۔ دیکھے ان دیکھے مقدمے میں اسلام آباد یا پنجاب پولیس کسی صورت گرفتار نہیں کر سکتی۔ اس فول پروف ’’ ضمانت ‘‘ کے باوجود عمران خان اور ان کے وکلاء تحریری کورٹ آرڈر کے بغیر عدالتی احاطے سے باہر جانے پر آمادہ نہ تھے۔اس دوراں وہ وقتا فوقتا دھمکی آمیز بیانات بھی جاری کرتے رہے۔ قبل ازیں جب سپریم کورٹ کے حکم پر عمران خان نے القادر ریفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا تو نماز جمعہ کے بعد سماعت کے نتیجے میں انہیں دو ہفتے کی ضمانت مل گئی مگر خدشہ تھا کہ حکومت انہیں کسی بھی اور مقدمے میں گرفتار کر لے گی اور اس خدشے کی تائید وزارت داخلہ کے اعلیٰ حکام سمیت عدالتی احاطے سے باہر موجود پولیس ذرائع بھی کر رہے تھے بلکہ ایک موقع پر سینئر صحافی حامد میر نے اپنے چینل پر گفتگو کرتے ہوئے بتا یا کہ اس وقت وفاقی اور پنجاب پولیس اپنے اپنے طور پر عمران خان کی گرفتاری کا’’ اعزاز‘‘ حاصل کرنے کیلئے باہم دست و گریباں ہیں اور دونوں کے اعلیٰ افسران کے درمیان اس معاملے پر تلخ کلامی بھی ہو چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی جی اسلام آباد کو حکومت کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کیلئے گرین سگنل مل چکا تھا مگر ممکنہ عدالتی احکامات آڑے آ رہے تھے اور اگلے دو گھنٹے میں عدالتی احاطے کے اندر موجود عمران خان کے خدشات دور ہو گئے، جبکہ عدالت سے باہر موجود حکومت کے خدشات درست ثابت ہوگئے۔ عدالتی اونٹ کے کسی کروٹ بیٹھے کے انتظار میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کو نہ صرف طول دیا گیا بلکہ پہلے مرحلے میں ایمرجنسی کے نفاذ کی تجویز سامنے آنے کے باوجود اسے دوسرے مرحلے کیلئے اس بہانے مئوخر کیاگیا کہ پی ڈی ایم کے اجلاس کی سفارشات کا انتظار کر لیا جائے ۔ ذرائع کے مطابق کابینہ میں موجود بعض ارکان اس بات پر دلبرداشتہ تھے کہ تحریک انصاف کی مار دھاڑ سے بھر پور جارحانہ حکمت عملی کے جواب میں حکومت بے عملی کا شکار ہے جس سے اس کے خوفزدہ ہونے کا تاثر جڑپکڑ رہا ہے تا ہم اس سوچ کے حامل افراد کو اظہار خیال کا موقع نہ ملا ۔البتہ نجی محفلوں اورٹی وی پروگراموں میں نواز لیگ کے یہ رہنماء اپنے جذبات کا اظہار کر چکے ہیں۔ کابینہ اجلاس میں تحریک انصاف کے پرتشدد احتجاج کے دوران سرکاری املاک اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے واقعات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اراکین نے کہا کہ سیکیورٹی صورت حال کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے لہذا کسی بڑے اور فیصلہ کن اقدام کی ضرورت ہے۔اجلاس میں ایمرجنسی کے نفاذ کا آپشن بھی زیر بحث آیا تاہم اس پر اتفاق رائے نہ ہو سکا ۔ابتدائی طور پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ پی ڈی ایم سے مشاورت کے بغیر اتنا بڑا فیصلہ نہیں کر سکتے۔تاہم بعد ازاں اجلاس کے دوسرے مرحلے میں بھی یہ معاملہ موخر کر دیا گیا البتہ اس دوران پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے پیر کو سپریم کورٹ پر دھرنے کا اعلان کرکے ایک لحاظ سے حکومت کو "فیس سیونگ” دے دی مگر دوسری طرف حکومت کے لیے ایک نئی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ دفعہ 144 اور آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی موجودگی کے دوران اس قسم کا احتجاج کسی ناخوشگوار واقعے کو جنم دیتا ہے تو اس کے پیشگی تدارک کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق کابینہ اجلاس کے دوران عدلیہ پر وزیراعظم کی تنقید حکومت کی بے بسی کی کیفیت آشکار کر رہی تھی حالانکہ خود کابینہ کے کئی ارکان کے علاوہ لیگی قائد میاں نواز شریف اور مریم نواز بھی اس معاملے میں جارحانہ حکمت عملی کے خواہشمند تھے جسے کسی حد تک مولانا فضل الرحمن نے عملی شکل دے دی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب چینلز پر لائیو دکھائے جانے والے کابینہ اجلاس کے پہلے مرحلے میں وزیراعظم شہباز شریف عدلیہ سے روہانسے ہو کر گلے شکوے کر رہے تھے،عین اسی وقت عدالتی احاطے میں موجود عمران خان حکومت اور عدلیہ کو ببانگ دہل یہ پیغام دے رہے تھے کہ حالات اسی صورت کنٹرول میں رہ سکتے ہیں جب میں باہر رہوں گا۔ان کا کہنا تھا کہ لیڈر کے بغیر لوگوں کو قابو میں رکھنا مشکل ہوتا ہے، چنانچہ میں کل عوام سے خطاب کرکے کہوں گا کہ یہ ملک اور فوج اپنی ہے اور یہ کہ لوگ پر امن رہیں۔
عمران خان کی گرفتاری اور رہائی کے حکم کے بعد 2 ہفتے کی ضمانت کے سارے عمل میں گزشتہ چار روز کے دوران جو ڈرامائی پیش رفت اور Twist آئے ہیں ،وہ عام آدمی ہی نہیں ،بڑے بڑے تجزیہ کاروں اور سیاسی مبصرین کے لیے بھی حیرتوں کا ایک جہان لیے ہوئے ہیں۔ذ رائع کا کہنا ہے کہ اس سارے عمل میں پیش منظر کے ساتھ ساتھ پس منظر میں ہونے والی پیش رفت بھی کار فرما ہو سکتی ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر ڈیل سے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں اور اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک صحافی نے جب عمران خان سے سوال کیا تو انہوں نے مزاحیہ انداز میں ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کو کہا۔البتہ صدر عارف علوی کی گزشتہ شب پولیس گیسٹ ہاؤس میں عمران خان سے ملاقات کے بعد یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ ڈاکٹر علوی نے انہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات درست کرنے کا مشورہ دیا ہے۔اس مشورے کا اثر کس قدر ہوا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عدالتی احاطے میں ہونے والی تازہ ترین گفتگو میں بھی عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو اپنی گرفتاری کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جبکہ دوسری طرف انٹرنیٹ کی محدود سہولت کے ساتھ سوشل میڈیا پر دستیاب وسائل کو اب بھی قومی اداروں کے خلاف پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس پراپیگنڈے کو بھارت سمیت ملک دشمن قوتیں ہاتھوں ہاتھ لیتی اور آگے بڑھاتی ہیں۔ظاہر ہے تحریک انصاف کی قیادت دیگر معاملات کی طرح بڑی سہولت کے ساتھ اس مہم کی اونر شپ سے بھی انکار کر سکتی ہے،مگر لمحہ موجود کی تلخ حقیقت یہی ہے کہ ملک آج جس قدر انتشار، افراتفری ، معاشی و معاشرتی انحطاط اور زبوں حالی کا شکار ہے اس کی مثال 76 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔