نواز طاہر :
پی ٹی آئی شر پسندوں کی جانب سے جناح ہائوس سمیت سول و عسکری تنصیبات پر حملوں اور توڑ پھوڑ کی تحقیقات کیلئے پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی (جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم) بنانے اور مقدمات جلد از جلد مکمل کرکے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ وزیر اعظم نے تمام ملزم شناخت کرکے 72 گھنٹوں میں گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔ پنجاب میں دفعہ ایک سو چوالیس میں بھی مزید توسیع کردی گئی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے گرفتار شدگان کو قانونی ریلیف بھی ملنا شروع ہوگیا ہے۔
جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کے زیر صدارت سیف سیٹیز اتھارٹی میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا اور شرپسندوں کی گرفتاریاں تیز کرنے کا فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔ جبکہ اس سے پہلے وزیراعظم نے کمبائینڈ ملٹری اسپتال ( سی ایم ایچ ) میں زخمی اہلکاروں کی عیادت کی اور شرپسندوں کی طرف سے جلائے جانے والے جناح ہائوس کا جائزہ بھی لیا۔
نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کی صدارت میں اجلاس میں کیے جانے والے فیصلے بارے میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ مقامات کی جیو فینسنگ کروائی جائے گی۔ ترجیحی بنیادوں پر مقدمات کی کارروائی مکمل اور ٹرائل کیلیے انہیں انسداد ِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بھیجا جائے گا، جس کیلیے محکمہ پراسیکیوشن متحرک کردیا گیا ہے ۔
اجلاس میں انسپکٹرجنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے صوبے میں امن وامان کی صورتحال اور شرپسندوں کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں بریفنگ دی، جس میں بتایا گیا حالات قابو میں ہیں۔ گرفتاریوں کے عمل کا جائزہ بھی لیا گیا اور اس میں مزید تیزی لانے کی ہدایت کی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ حملہ کرنے والے شر پسندوں کی شناخت کا مرحلہ جاری ہے اور شہریوں کی جانب سے بھی شناخت کے عمل میں مدد ملنا شروع ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس تمام عمل میں سیکریسی پر سختی سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔
سرکاری و نجی اداروں پر حملوں، توڑ پھوڑ، تشدد اور جلاؤ گھیراؤ میں گرفتار ہونے والے شرپسندوں کی تعداد تقریباً تین ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں پولیس کے زیر استعمال جلائی اور توڑی جانے والی چوہتر گاڑیوں تھانوں اور چوکیوں کی رپورٹ میں پیش کی گئی جس میں بتایا گیا ہے کہ ڈیڑھ سو سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ گرفتار شدگان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کارروائی شروع کردی گئی ہے، جس میں محکمہ پراسیکیوشن بھی معاونت کررہا ہے۔ گرفتاریوں کا عمل جاری ہے۔
اطلاعات کے مطابق کور جناح ہائوس پر حملہ کرنے والے چار ہزار افراد کا ڈیٹا اسکین کیا گیا ہے اور ان کی شناخت کی گئی ہے، جن میں نقاب پوش اور خواتین بھی شامل ہیں۔ تاہم بہت سے شرپسندوں کی نشاہندہی تاحال نہیں ہو پا رہی۔ امن و امان کی اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کل پندرہ مئی سے تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ جبکہ اس سے پہلے فوجی دستوں نے فوٹریس اسٹیڈیم سے شیر پاؤ پل، لبرٹی مارکیٹ،کلمہ چوک برکت مارکیٹ،ماڈل ٹاؤن،پیکو روڈ،فیروز پور روڈ کینال روڈ سے واپس فورٹریس اسٹیڈیم تک فلیگ مارچ بھی کیا۔ لیکن قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے بارے میں بعض امور واضح نہیں کیے گئے۔ نہ تو یہ بتایا گیا ہے کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم پورے صوبے میں ہونے والی توڑ پھوڑ جلائو گھیرائو اور حملوں کی تحقیقات کرے گی یا الگ الگ ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی اور نہ ہی ان کی ٹی او آرز کے بارے میں وضاحت کی جارہی ہے۔
ابتدائی طور پر ایک خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم کی تشکیل سامنے آئی ہے، جس کی سربراہ راولپنڈی کی خاتون ایس ایس پی انویسٹی گیشن زنیرہ ظفر کو بنایا گیا ہے۔ جبکہ کینٹ اور سٹی کے ایس ڈی پی او اور تین تھانوں کے انچارج اس کے ارکان میں شامل ہیں۔ یہ سطور لکھے جانے تک کی اطلاعت اور ٹیم کی ساخت کے مطابق یہ ٹیم راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملہ آور ہونے والوں کی تحقیقات کرے گی۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اسے کس حد تک کسی سرکاری اہلکار کو تحقیقات کے دوران شہادت قلمبند کرنے کیلیے بلانے کی اجازت ہوگی؟
پنجاب حکومت کی مجوزہ جے آئی ٹی کے ٹی او آرز کے بارے میں صوبائی حکومت ابھی خاموش ہے اور اس ضمن میں کچھ وضاحت کرنے سے گریزاں ہے۔ جبکہ مختلف تحقیقاتی ٹیموں میں شامل رہنے والے کچھ افسروں کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کا آغاز جن نکات سے ہونا ہے ان کے بارے میں ٹی او آرز طے ہونا لازم ہیں۔ جب تک ٹی او آرز سامنے نہیں آتے تب تک یہی گمان کیا جاسکتا ہے کہ مجوزہ ٹیم سول معاملات تک محدود رہ سکتی ہے۔ وہ سازش کرنے والوں، اشتعال دلانے، اشتعال میں آنے والوں اور سازش پر عملدرآمد کرنے والوں کے بارے میں ہی تحقیقات کرے گی؟ جبکہ جناح ہائوس پر حملے کی تحقیقات کیلئے جن اہم امور کا ٹی او آرز میں شامل کیا جانا اور جن امور کو سامنے رکھا جانا ضروری ہے،
ان میں کینٹ کے علاقے میں شرپسندوں کا کسی رکاوٹ اور مزاحمت کے بغیر داخل ہونا جیسے امور کی پڑتال اہم ترین ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب ٹیم کو ہر ادارے کے ملازمین کی شہادت قلمبند کرنے کیلئے آسان اور آزادانہ رسائی میسر ہو۔
دوسری جانب عدالتِ عالیہ لاہور نے پی ٹی آئی کی صوبائی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد سمیت سترہ خواتین کی رہائی کا حکم دیدیا ہے اور ڈاکٹر یاسمین کی نظربندی کے احکامات بھی معطل کردیے ہیں اور مزید مقدمات عدالت میں چیلنج کیے جارہے ہیں جن میں ریلیف ملنے کی توقع بھی ظاہر کی جارہی ہے۔ تاہم بڑی تعداد میں کارکنوںکی رہائی کیلئے آگے قدم بڑھانے والا بھی کوئی دکھائی نہیں دے رہا۔ جبکہ اسی دوران دفعہ ایک سو چوالیس کے نفاذ کی مدت میں تو سیع کردی گئی ہے تاہم زمان پارک میں اس کا اطلاق دکھائی نہیں دیتا۔