ترک انتخابات،اب کیا ہوگا؟

کئی وجوہ کی بنا پر مجھے ترکیا کے حالیہ انتخابات سے بے حد دلچسپی ہے۔ اس لئے حتی المقدور ان پر نظر بھی رکھی۔ تمام ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی اور الیکشن کمیشن نے غیر حتمی نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کے مطابق اردگان نے 49.51 فیصد اور کلیجدار نے 44.88 فی صد ووٹ لئے۔ ایک لاکھ 91 ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے تھے۔ پولنگ پرامن رہی اور کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا۔ ملک میں 88 اعشاریہ 92 اور بیرون ملک 52 اعشاریہ 29 رائے دہندگان نے اپنا حق استعمال کیا۔ ووٹرز کی کل تعداد 60 ملين،6 لاکھ 97 ہزار 843 تھی۔ جن میں سے 4 ملين 9 لاکھ 97 ہزار 672 افراد نے پہلی بار ووٹ کاسٹ کیا۔ قانون کے مطابق کامیاب صدارتی امیدوار کیلئے 50 فیصد سے زائد ووٹ لینا ضروری تھا۔ جو کسی کو نہیں ملے۔ اس لئے اب 28 تاریخ کو دوبارہ الیکشن ہوگا۔ جس میں صرف اردگان اور کلیجدار مد مقابل ہوں گے۔ جس میں کئی وجوہ کی بنا پر اردگان کی جیت کے امکانات واضح ہیں۔ کلیجدار کا جیتنا اب معجزہ ہی کہلا سکتا ہے۔ کیوں؟1۔ اردگان اگرچہ صدارتی دوڑ میں مطلوبہ ہدف نہ پا سکے، لیکن پارلیمان میں وہ واضح برتری حاصل کرچکے ہیں۔ کلیجدار اب پارلیمان سے ہارے ہوئے امیدوار کے طور پر میدان میں اترے گا۔ ووٹر جانتے ہیں کہ اگر وہ صدارتی انتخاب جیت بھی جائے تو وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے گا۔ کلیجدار کا ٹارگٹ صدارتی کے بجائے پارلیمانی نظام کا دوبارہ قیام تھا۔ اب یہ مقصد دفن ہوچکا ہے۔ کیونکہ یہ پارلیمان ہی کے راستے ممکن تھا۔2۔ کلیجدار کی اتحادی میرال اکشنار اور اس کے امیدوار پارلیمانی دوڑ میں بری طرح پٹ چکے ہیں۔ میرال کا خواب تھا کہ وہ پارلیمان کی قیادت سنبھال کر راج کرے گی۔ اب جبکہ میرال کے وزیر اعظم بننے کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے تو اس کی پارٹی کے ووٹر بھی کل کے انتخابات کی طرح کلیجدار کیلئے کوئی خاص سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔3۔ کلیجدار اردگان سے ہار چکا ہے۔ وہ ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح میدان میں اترے گا۔ کل کے انتخابات میں اردگان کے مجموعی ووٹ کلیجدار سے 25 لاکھ زیادہ ہیں۔ اس کے اپنے ووٹر وہی ہیں، جنہوں نے کل اس کے حق میں ووٹ دیا۔ اب وہ سنان اوغان کے ووٹ کھینچنے کی کوشش کرے گا۔ جن کی مجموعی تعداد 28 لاکھ ہے۔ یہ بہت مشکل ہے کہ کلیجدار ان میں سے 25 لاکھ کو اپنی جانب متوجہ کرسکے۔4۔ اوغان نہ تو اردگان سے مل سکتا ہے اور نہ ہی کلیجدار سے۔ کلیجدار سے اتحاد کی واحد شرط یہ ہے کہ وہ ایچ ڈی پی سے اپنی راہ جدا کرلے۔ ایسا کرنا کلیجدار کیلئے پاگل پن ہی ہوسکتا ہے۔ 5۔ سنان اوغان اگر کلیجدار سے مل بھی لے تو وہ وزارت مانگے گا اور کلیجدار وزارتیں پہلے ہی اتحادیوں میں تقسیم کر چکا ہے۔ اگر کسی طرح ان میں اتحاد ہو بھی جائے تو اوغان کے سارے ووٹ پھر بھی کلیجدار کو نہیں ملیں گے۔ یہاں تک کہ اگر اوغان اپنے ووٹرز سے اپیل بھی کرے تو وہ کلیجدار کو ووٹ نہیں دیں گے۔ کیونکہ اپنی پوری انتخابی مہم میں وہ کلیجدار اور اس کی اتحادی ایچ ڈی پی کے خلاف سخت تقریریں کر چکا ہے۔ اوغان کے حامی سب کٹر قوم پرست ہیں۔ وہ کسی صورت کلیجدار کو ووٹ نہیں دیں گے۔ یہ بھی طے ہے کہ اوغان کو ملنے والے ووٹوں میں سے کم ازکم دو فی صد محرم انجہ کے ہیں۔ 6۔ محرم انجہ کے حامی بھی کلیجدار کو ووٹ نہیں دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کل کے انتخابات میں بھی انہوں نے کلیجدار کے بجائے اوغان کی تصویر پر مہریں لگائیں۔ اغلب یہی ہے کہ وہ اگلے مرحلے کے انتخاب میں ووٹ ہی نہیں دیں گے۔ اگر دیا بھی تو اردگان کو دیں گے۔ 7۔ عموماً یہی ہوتا ہے کہ اگلے مرحلے کے انتخابات میں ووٹرز پہلے کی طرح جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ سابقہ ریکارڈ بھی یہی بتاتا ہے کہ سیکنڈ رائونڈ میں ٹرن آئوٹ میں کافی کمی آتی ہے۔ اس بار اس میں مزید کمی اس لئے بھی آئے گی کہ اپوزیشن کو پارلیمان میں شکست فاش ہو چکی ہے۔ پھر نوجوانوں کو جو سنہرے خواب دکھائے گئے تھے، وہ بھی ہوا میں تحلیل ہو چکے ہیں۔ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ ہم کم از کم 60 فیصد ووٹ کر جیت رہے ہیں۔8۔ اوغان اور محرم کے ووٹرز کو حاصل کرنے کیلئے اے کے پارٹی (اردگان) بھی ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی۔ تاہم اس میں انہیں پہلی مشکل یہ پیش آئے گی کہ سنان کی پہلی شرط شامی مہاجرین کی بے دخلی ہے۔ جسے قبول کرنا اردگان کیلئے آسان نہیں ہے۔ دوسری شرط ہدی پارٹی سے اتحاد کے خاتمہ کی ہوگی۔ لیکن یہ شرط نسبتاً آسان ہے۔ تاہم سنان اوغان کے حامی قوم پرست ہیں۔ یہ عنصر انہیں کلیجدار کے بجائے اردگان کی حمایت پر مجبور کر سکتا ہے۔ کیونکہ کلیجدار ترک نہیں، بلکہ ایرانی النسل ہے۔ان حقائق کے پیش نظر ہم پر امید ہیں کہ اگلے مرحلے میں اردگان بہ آسانی جیت جائیں گے۔ ان شاء اللہ(ضیاء چترالی)