سجاد عباسی
تحریک انصاف کی قیادت کے ہاتھوں سے سیاسی طاقت مٹھی میں ریت کی طرح سرک رہی ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ اس کے حامی، پارٹی سے لاتعلقی اختیار کرنے والوں اور وعدہ معاف گواہوں کا ایک انبوہ کثیر دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے۔باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردارتنویر الیاس کی للکار اور کراچی سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیت محمود مولوی کی جانب سے علیحدگی کا اعلان تحریک انصاف کے لیے باغیوں کا ” فلڈ گیٹ” کھولنے کا نکتہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔مذکورہ دونوں شخصیات کی پارٹی سے بغاوت یا علیحدگی کی وجوہات بظاہر الگ الگ ہیں مگر ان دونوں میں قدر مشترک ان کا کاروباری ہونا ہے اور پت جھڑ کے موسم میں یہی پرندے سب سے پہلے اڑان بھرتے ہیں۔اب یہ بات راز نہیں رہی کہ مذکورہ دونوں شخصیات عمران خان اور ان کی جماعت کے لئے اے ٹی ایم کا درجہ رکھتی ہیں، بالخصوص سردار تنویر الیاس نے جہانگیر ترین کی جدائی کے بعد جس طرح سیاسی و غیر سیاسی فنڈ کے نام پر تحریک انصاف کی قیادت کیلئے خزانے کا منہ کھولا ،ان کا دعویٰ ہے کہ فی الوقت ان کے انکشافات آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں،اس حوالے سے جب وہ اپنامنہ کھولیں گے تو لوگ منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
ادھر پی ٹی آئی کراچی کے صدر اور سابق وفاقی وزیر علی زیدی کی ڈھیلی ڈھالی وضاحت یا تردید بھی ان کے حوالے سے زیر گردش اطلاعات کا توڑ کرنے میں ناکام ہے اور پارٹی کے اندرونی ذرائع کی جانب سے جس طرح سوشل میڈیا پر ان کی اہم حلقوں کے ساتھ "سیٹنگ "کے حوالے سے منظم اور جارحانہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے،اس سے مستقبل میں پارٹی کے ساتھ ان کے تعلق کا اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک اکبر ایس بابر ،جہانگیر ترین اور عون چوہدری جیسے جتنے بھی لوگ تحریک انصاف سے باغی ہوئے ہیں، یہ سب قیادت کے مقرب اور رازدان کا درجہ رکھتے تھے اور ان میں سے اکثر کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا بلکہ ان کی شہرت عمران خان کے قریبی دوست کی ہی تھی ، یا یوں کہیے کہ انہوں نے اپنا سیاسی کیریئر تحریک انصاف سے ہی شروع کیا تھا جس کی تازہ مثال خود سردار تنویر الیاس بھی ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اگر قیادت کی قربت رکھنے والے اس آسانی اور سہولت کے ساتھ پارٹی چھوڑ سکتے ہیں تو تخلیق کاروں کے اشارے پر پارٹی میں شامل ہونے اور اعلی ترین حکومتی اور سیاسی عہد وں تک پہنچنے والوں کےلیے الوداع کہنا کیا مشکل ہوگا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف کے "ہیوی ویٹ” سمجھے جانے والے پارٹی رہنماؤں کی اکثریت اسی "مکتب فکر” سے تعلق رکھتی ہے جن میں شاہ محمود قریشی،پرویز الٰہی، فواد چوہدری،بابر اعوان،خسرو بختیار اور دیگر شامل ہیں، الگ شناخت رکھنے والے شیخ رشید کو بھی اسی لائن میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کا اپنا اثاثہ سمجھے جانے والے پرویز خٹک ،اسد عمر، شیریں مزاری اور دیگر کئی رہنما ایسے ہیں جو خود قیادت کی نظر میں شک و شبہ سے بالاتر نہیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان رہنماؤں کی اکثریت بھی اس وقت جیل میں موجود ہے اور قیادت سے ان کا رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔فواد چوہدری چند روزہ حراست کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر باہر تو آگئے مگر 9 مئی کو ہونے والی تخریب کاری کے حوالے سے ان کا مذمتی بیان اور فوج کی توصیف پارٹی قیادت کی طبیعت مکدر کرنے کا سبب بن سکتی ہے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ، اس معاملے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب فوجی تنصیبات اور قومی املاک پر حملوں کے بعد تحریک انصاف اپنی شناخت تبدیل کرکے خود پر بڑی حد تک’’عسکریت پسندی‘‘ کی چھاپ لگا چکی ہے،سیاست کی پرخار وادی میں اپنی زندگی بتانے والے مذکورہ سیاستدان اپنی ساری پونجی اس جماعت کیلئے کیوں قربان کریں گے جس میں انہیں اپنا سیاسی مستقبل تاریک نظر آتا ہو۔ چنانچہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر آنے والے دنوں میں نسبتاً بڑے سائز کے "تنویر الیاس اور محمود مولوی” سامنے آتے ہیں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔بالخصوص وہ لوگ جو اس وقت زمان پارک سمیت پارٹی قیادت کے لیے زمان و مکاں کی حدود سے نکل چکے ہیں،ان کی جانب سے قیادت کے لیے حیران کن اعلانات سامنے آ سکتے ہیں۔دوسری طرف "فائر برانڈ” کی حیثیت رکھنے والے شہریار آفریدی اور فیاض چوہان جیسے لوگ پہلے ہی قانون کی گرفت میں آ چکے ہیں۔بعید نہیں کہ ان میں سے بھی بعض اپنی جماعت کے ان جذباتی کارکنوں کی طرح سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے کے بعد یہ بتا رہے ہوں کہ وہ قیادت کے بہکاوے میں آکر اس حد تک چلے گئے تھےاور اب اپنی حرکتوں پر نادم ہیں۔اگر اس قسم کے اعترافات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے تو قانون کی زبان میں اس کے لئے وعدہ معاف گواہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ایک ایسے وقت میں جب جی ایچ کیو اور کورکمانڈر ہاؤس جیسی اہم ترین فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والوں اور اس تخریب کاری کے منصوبہ سازوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کا اعلان کردیا گیا ہے،کون اپنی باقی ماندہ زندگی سلاخوں کے پیچھے گزارنے میں دلچسپی رکھتا ہوگا۔سیاسی مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت نے عوامی مقبولیت کی لہر پر سوار ہوکر خود کو سونامی کے حوالے کر دیا ہے،مگر یہ سونامی وہ نہیں جس میں تحریک انصاف اپنے حریفوں کو غرقاب کرنا چاہتی تھی۔