محمد نعمان اشرف
مون سون کی بارشوں سے نمٹنے کیلیے بلدیہ عظمیٰ کراچی نے کوئی انتظامات نہیں کیے۔ اس وقت سمندری طوفان 1420 کلو میٹر دور ہے۔ جو کسی بھی وقت کراچی کے ساحل سے ٹکرا سکتا ہے۔ انتظامات نہ ہونے سے کراچی پھر ڈوب جائے گا۔ 30 سے زائد بڑے برساتی نالے اور 500 سے زائد چھوٹے نالوں پر کے ایم سی اور ڈی ایم سی افسران نے لاکھوں روپے رشوت وصولی کے بعد تجاوزات قائم کروا رکھی ہیں۔ شہر کے تمام بڑے برساتی نالے کچرے سے بھرے ہوئے ہیں۔ سیوریج کا بوسیدہ نظام بھی مشکلات میں اضافہ کرے گا۔ جگہ جگہ لگے کچرے کے ڈھیر بھی اذیت کا سبب بنیں گے۔ گزشتہ سال بھی طوفانی بارشوں سے نصف شہر ڈوب گیا تھا۔
کراچی میں مون سون بارشوں سے قبل کسی قسم کے انتظامات نہیں کیے گئے۔ اس وقت سمندری طوفان ’بپر جوئے‘ (BIPARJOY) جنوب مشرق بحیرہ عرب میں تشکیل پاگیا ہے اور دن بدن شدت اختیار کر رہا ہے اور اس وقت کراچی سے 1420 کلو میٹر دور ہے۔ سمندری طوفان بپر جوئے کسی بھی وقت کراچی کے ساحلی علاقوں سے ٹکرا سکتا ہے۔ جس کے باعث شدید بارشیں متوقع ہیں۔
مذکورہ الرٹ محکمہ موسمیات جاری کرچکا ہے۔ تاہم شہری انتظامیہ اور صوبائی حکومت نے اب تک کراچی میں کوئی انتظامات نہیں کیے۔ جون، جولائی اور اگست میں ویسے بھی بارشیں ہوتی ہیں۔ گزشتہ سال بھی محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا تھا کہ جولائی اور اگست میں زیادہ بارشیں ہوں گی۔
محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ سال سب سے زیادہ 855 ملی میٹر بارش گلشن حدید میں ریکارڈ کی گئی۔ جناح ٹرمینل میں 379 ملی میٹر۔ فیصل بیس میں 583 ملی میٹر۔ مسرور بیس 713 ملی میٹر۔ یونیورسٹی روڈ 424 ملی میٹر۔ ناظم آباد 477 ملی میٹر۔ نارتھ کراچی 400 ملی میٹر۔ اورنگی ٹائون 425 ملی میٹر۔ ڈی ایچ اے 612 ملی میٹر۔ قائد آباد 669 ملی میٹر۔ سعدی ٹائون 388 ملی میٹر۔ سرجانی ٹائون 556 ملی میٹر۔ کیماڑی 437 ملی میٹر۔ گلشن معمار 323 ملی میٹر۔ کورنگی میں 303 ملی میٹر اور صدر میں 445 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔ ان بارشوں میں نصف شہر ڈوب گیا تھا۔
صدر، لائٹ ہائوس، لیاری، بلدیہ، اتحاد ٹائون، اورنگی ٹائون، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، نیو کراچی اور ملیر سمیت دیگر علاقوں کے گھروں میں بھی پانی داخل ہوگیا تھا اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان علاقوں سے گزرنے والے برساتی نالوں کی صفائی نہیں کی گئی تھی۔ اس وقت بھی متاثرہ علاقوں میں سیوریج نظام مکمل طور پر تباہ ہے۔ برسوں سے ان علاقوں میں سیوریج کی بہتری کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
اس وقت شہر کے 34 بڑے برساتی نالے تاحال کچرے سے بھرے ہوئے ہیں۔ اورنگی نالہ، سکھن نالہ، حب ریور روڈ نالہ، شیر شاہ نالہ، ہارون آباد نالہ، 7 ہزار روڈ برساتی نالہ، 52 سو برساتی نالہ، کلری نالہ، پکچر نالہ، سٹی نالہ، سولجر بازار نالہ، نہر خیام برساتی نالہ، فریئر نالہ، منظور کالونی نالہ، محمود آباد برساتی نالہ، عظیم پورہ نالہ، پہلوان گوٹھ برساتی نالہ،گولڈن ٹائون برساتی نالہ، کورنگی انڈسٹریل ایریا برساتی نالہ، گجر نالہ اور مہران برساتی نالہ سمیت دیگر نالوں کی صفائی بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ آگرہ تاج کالونی، دریا آباد، نوا آباد، بغدادی، شاہ بیگ لائن، سنگو لائن، علامہ اقبال کالونی، پرانا حاجی کیمپ، گارڈن، کھارادر، سٹی ریلوے کالونی، نانکواڑا، ملت نگر، یوسی 8 صدر، سول لائن، کلفٹن یو سی10، مچھر کالونی یوسی 05، ماڑی پور، شیر شاہ، پی سی ایچ ایس ون ٹو، جیٹ لائن، سینٹرل جیک لائن، جمشید کوارٹر، فاطمہ جناح کالونی، گارڈن ایسٹ، سولجر بازار، پاکستان کوراٹر، اختر کالونی، منظور کالونی، آعظم بستی، چنیسر گوٹھ، محمودآباد، یوسی 6 منظور کالونی، گلشن زون کے علاقے، سوک سینٹر، پی آئی بی کالونی، عیسیٰ نگری، گلشن اقبال، گلانی ریلوے، شانتی نگر، جمانی کالونی، گلشن اقبال، نیو دھوراجی، پہلوان گوٹھ، میٹروویل کالونی، گلزار حجری، صفورا گوٹھ، جیکب لائن، جٹ لائن، محمود آباد، چنیسر گوٹھ، قائدآباد 4، لانڈھی یوسی 5، گلشن حدید، مراد میمن گوٹھ، گڈاپ یوسی 3، یوسف گوٹھ، منگھوپیر یوسی8، ماڈل کالونی یوسی ایک، جعفر طیار، غازی بروہی گوٹھ، اتحاد ٹائون، اسلام نگر، سعید آباد، مسلم مجاہد کالونی، مہاجر کیمپ، مومن آباد، مدینہ کالونی، بلال کالونی، اقبال بلوچ کالونی، بلوچ گوٹھ، پاک کالونی، فرنٹیئر کالونی، بنارس سمیت دیگر علاقوں میں بھی 500 سے زائد چھوٹے برساتی نالے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ کے افسران نے لاکھوں روپے رشوت وصولی کے بعد نالوں پر تجاوزات قائم کروا رکھی ہیں۔ جس کے باعث نالے کی صفائی کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ کورنگی ڈھائی نمبر کے برساتی نالے میں سیکٹر 33 اے، بی، سی، ای اور ڈی کے علاقوں کا پانی آکر گرتا ہے۔ اسی طرح کورنگی دو نمبر کے برساتی نالے میں کورنگی 2 اور ڈیڑھ نمبر کے علاقوں کا پانی آتا ہے۔
کورنگی انڈسٹریل ایریا سے شروع ہونے والا چھوٹا برساتی نالہ علاقہ مکینوں اور بلدیاتی افسران نے مٹی ڈال کر بند کردیا ہے اور اس پر تجاوزات قائم کردی گئی ہیں۔ نالے کے اوپر پنکچر کی دکانیں، کیبن، گنے کی مشینیں اور دیگر تجاوزات قائم ہیں۔ کورنگی 2 نمبر سے گزرنے والے برساتی نالے پر کورنگی کا بچت بازار بھی قائم ہے۔ بچت بازار متحدہ کے دور نظامت میں قائم ہوا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ بازار سے متحدہ کارکنان تاحال وصولیاں کر رہے ہیں۔ یہ نالہ مکمل کچرے سے بھرا ہوا ہے۔ نالے میں کئی کئی فٹ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ نالے پر مکینوں نے ازخود پلیا بھی بنالی ہیں۔ جن کی اجازت بلدیہ عظمیٰ کے متعلقہ افسران نے دی تھی۔ نالہ بند ہونے سے متعدد علاقوں کا سیوریج نظام بوسیدہ ہوگیا ہے۔
کورنگی سیکٹر 33 اے اور اس سے ملحقہ علاقوں کا سیوریج نظام اس قدر متاثر ہو چکا ہے کہ آئے روز مکینوں کے گھروں کے سامنے سیوریج کا گندا پانی کھڑا رہتا ہے۔ محمود آباد کے 4.12 کلو میٹر طویل نالے پر دکانیں، گودام، اسکول اور بڑی عمارتیں قائم ہیں۔ نالے کو جگہ جگہ سے بند کرکے یہاں راستے بنادیئے گئے ہیں۔ جن کی اجازت انسداد تجاوزات کے ڈپٹی ڈائریکٹرز نے دی تھی۔ محمود آباد کا برساتی نالہ تجاوزات کے باعث ہر برسات میں اوور فلو ہوجاتا ہے۔ جس کی بڑی وجہ نالے پر قائم تجاوزات ہیں۔
شارع فیصل سے شروع ہونے والا برساتی نالہ صدر میں جاکر دوسرے نالے سے ملتا ہے۔ شارع فیصل سے صدر تک نالے پر جگہ جگہ تجاوزات قائم ہیں۔ لائنزایریا کے داخلی راستے پر نالے کا کچھ حصہ کھلا ہوا ہے جس میں دکاندار اپنی دکانوں کا گند ڈالتے ہیں۔ صدر سے گزرنے والے برساتی نالے پر بھی جگہ جگہ تجاوزات ہیں۔ جس کی وجہ سے لائنز ایریا کا سیوریج نظام تباہ ہوگیا ہے۔ علاقے میں آئے روز گٹروں کا ابلنا معمول ہے۔
سولجر بازار نالہ گرومندر سے شروع ہوکر پی آئی ڈی سی تک جاتا ہے۔ اس نالے میں گرومندر، سولجر بازار، گارڈن، اردو بازار، سندھ سیکریٹریٹ سمیت دیگر متعدد علاقوں کا پانی گرتا ہے۔ مشاہدے میں آیا کہ سندھ سیکریٹریٹ کے عقبی حصے میں نالے کی اراضی پر اسکول بنا ہوا ہے۔ کچھ دور فاصلے پر بزنس روڈ فوڈ اسٹریٹ کے ریسٹورنٹس بھی اسی نالے پر قائم ہیں۔
اس کے علاوہ بزنس روڈ کے اطراف چند مکانات بھی نالے پر بنے ہوئے ہیں۔ اردو بازار کا ایک بڑا حصہ نالے پر قائم ہے۔ کئی برس قبل اردو بازار کا ایک حصہ گیس کے اخراج نہ ہونے کے باعث شدید متاثر ہوا تھا۔ جس کے بعد انسداد تجاوزات عملے نے اردو بازار کے دکانداروں کو نوٹس جاری کیے تھے۔
اردو بازار کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ انسداد تجاوزات کا عملہ جب یہاں نوٹس دیکر گیا تھا تو اس کے اگلے روز ہی کے ایم سی کے بیٹرز نے مارکیٹ سے بھتہ وصولیاں کی تھیں۔ جس کے بعد انسداد تجاوزات عملہ یہاں کبھی نہیں آیا۔ اسی طرح برنس روڈ پر بھی انسداد تجاوزات عملے نے بڑے پیمانے پر آپریشن کیا تھا اور ان گھروں کو نقصان پہنچایا تھا جو قانونی تھے۔ تاہم آپریشن کے دوران نالے پر بنے ریسٹورنٹس اور مکانات کو چھوڑ دیا گیا تھا۔ سولجر بازار میں متعدد دکانیں نالے کے اوپر قائم ہیں۔ گارڈن کے علاقے میں دکانیں، مکان، گودوام اور بڑی عمارتیں نالے پر بنی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گارڈن میں بھی انسداد تجاوزات عملے نے آپریشن شروع کیا تھا لیکن نالے پر بنی تجاوزات کو چھوڑ دیا گیا۔ پکچر نالہ کم از کم 4 کلو میٹر سے زائد طویل ہے۔ یہ جمیہ اسٹریٹ سے شروع ہوکر نالہ محمود شاہ روڈ، موسیٰ لین، کھڈا مارکیٹ، کھارادر، لی مارکیٹ سے ہوتا ہوا آئی سی آئی پل تک جاتا ہے۔ نالے پر جگہ جگہ پکی تجاوزات قائم ہیں۔ جمیلہ اسٹریٹ کے اطراف نالے پر دکانیں بنی ہیں۔
اسی طرح اولڈ حاجی کیمپ کے نالے پر بھی بڑی عمارتیں اور کھانے پینے کی دکانیں اور ہوٹل قائم ہیں۔ درجنوں لکڑی کے گودام بنے ہیں۔ جن کا برادا نالے میں پھینکا جاتا ہے۔ اسی طرح نالے پر سرکاری اسکولز اور مدرسہ ہے۔ جبکہ علاقہ مکینوں نے نالے پر ازخود پلیا بنائی ہوئی ہیں۔ نالے کے بالکل برابر میں ہی درجنوں عمارتیں قائم ہیں۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ کئی سال پہلے یہاں نالے کے اطراف کوئی عمارت، دکان، گودام نہیں تھے۔ نالے کے دونوں جانب 20 فٹ کا فاصلہ تھا۔ تاہم اچانک یہاں تعمیرات شروع ہوئیں اور پھر نالے کے اوپر بھی تجاوزات قائم ہوگئیں۔ جس سے بیشتر مقامات پر نالہ بند ہوگیا ہے۔شیر شاہ کا برساتی نالہ تقریباً پونے 2 کلو میٹر بعد لیاری ندی میں گرتا ہے۔ اس برساتی نالے پر جگہ جگہ دکانیں، مکان اور گودام تعمیر کردیئے گئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو محکمہ موسمیات کے چیف میٹ سردار سرفراز نے بتایا کہ اس وقت سمندری طوفان کراچی سے 1420 کلو میٹر دور ہے۔ اس کے کراچی میں داخل ہونے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ لیکن قبل از وقت کچھ کہہ نہیں سکتے۔ مون سون کی بارشیں جون، جولائی اور اگست میں ہوتی ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نالوں کی صفائی ہونی چاہیے۔ تاہم اس کا حکم ہم نہیں دے سکتے۔ لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ کراچی کے برساتی نالے صاف ہونے چاہئیں۔