اسلام آباد (امت نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوائری یا انویسٹی گیشن تو ہونی چاہیے، یہ کہنا درست نہیں کہ سویلینز کا آرمی ایکٹ سے ٹرائل نہیں ہو سکتا، اگر کوئی سویلین کسی آرمی آفیشل سے مل کر ریاست مخالف کچھ کرے تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بنچ میں شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے، انہوں نے تحریری دلائل بھی جمع کروائے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟ کون سے ایسے مخصوص حالات ہیں جن میں ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟
فیصل صدیقی نے لیاقت حسین، سعید زمان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے یہ کہتے ہیں کہ واضح تفریق ہونی چاہیے، ہم نہیں کہتے کہ لوگوں کا سخت ٹرائل نہ ہو، انسدادِ دہشت گردی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کہاں ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپنے دلائل متعلقہ نکات تک محدود رکھیں، آج کا دن درخواست گزاروں کیلئے مختص ہے، بے شک 3 بجے تک دلائل دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ملٹری کے اندر کام کرنے والا بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ کار ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقے عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ آپ ابھی تک بنیادی پوائنٹ ہی نہیں بتا سکے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں؟ اگر ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟