امت رپورٹ :
عمران خان کو جیل جانے سے بچانے اور دوبارہ اقتدار میں لانے کے لئے کی گئی کروڑوں روپے کی بیرونی سرمایہ کاری ڈوب گئی۔
پی ٹی آئی نے اس سلسلے میں امریکی لابنگ فرموں کی خدمات حاصل کی تھیں۔ عمران خان کے حق میں ارکان کانگریس کی بیان بازی اور مختلف غیر ملکی اخبارات و جرائد میں چیئرمین پی ٹی آئی کے انٹرویوز اور ان کی حمایت میں مضامین، انہی لابنگ فرموں کی مرہون منت تھے۔ تاہم یہ ساری کوششیں ناکام رہیں۔ عمران خان کو نا صرف تین برس کی سزا ہوگئی، بلکہ وہ پانچ برس کے لئے نا اہل بھی ہوچکے ہیں۔
پی ٹی آئی امریکہ کی ایما پر عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت میں پیش پیش رہنے والے بریڈ شرمین سمیت دیگر ارکان کانگریس اور زلمے خلیل زاد نے بھی عمران خان کی گرفتاری پر حیرت انگیز طور پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے تقریباً ایک ہفتہ بعد اس حوالے سے بریڈ شرمین نے ایک پلپلا سا ٹویٹ ضرور کیا ہے۔ جبکہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ عمران کی گرفتاری کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے چکا ہے۔ یوں بھاری فیسوں کے عوض امریکہ میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے لئے کی جانے والی لابنگ مکمل طور پر غیر موثر رہی۔
عمران خان کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد پی ٹی آئی نے امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کے طور پر گزشتہ برس اگست میں واشنگٹن کی ’’فینٹن آرلک‘‘ نامی پی آر فرم کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ دلچسپ امر ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے میں امریکی ہاتھ ملوث ہونے کا پروپیگنڈا زورشور سے کر رہے تھے۔ اس فرم کے ساتھ یہ معاہدہ پچیس ہزار ڈالر ماہانہ کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ یوں مجموعی رقم ڈیڑھ لاکھ ڈالر بنتی ہے جو پاکستانی روپے میں چار کروڑ تیس لاکھ چھپن ہزار سے زائد ہے۔
یہ معاہدہ فینٹن کے ساتھ پی ٹی آئی امریکہ نے کیا تھا۔ معاہدے کے تحت پی آر فرم نے امریکہ میں متعدد صحافیوں، مدیروں، پروڈیوسروں اور کالم نگاروں کے ذریعے عمران خان اور پی ٹی آئی کی سپورٹ کی۔ اقتدار سے محرومی کے بعد مغربی میڈیا سے عمران خان کے ڈیڑھ سے دو درجن کے قریب انٹرویوز اور غیر ملکی اخبارات و جرائد میں پی ٹی آئی کے حق میں متعدد مضامین اسی پی آر فرم فینٹن کی مرہون منت تھے۔ جبکہ پی آر فرم نے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے مشاورتی پارٹنر کے طور پر بھی کام کیا۔ تاکہ بین الاقوامی سطح پر پی ٹی آئی کے پروپیگنڈے کو زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جاسکے۔
اس کام کے لئے فینٹن نے ماہانہ پچیس ہزار ڈالر کے علاوہ دیگر اخراجات بھی وصول کئے۔ جب کہ ایڈوانس کے طور پر دو ماہ کی فیس یعنی پچاس ہزار ڈالر لئے تھے۔ معاہدے پر یکم اگست کو ڈیوڈ فینٹن اور پی ٹی آئی امریکہ کے وکیل سلمان راولا نے دستخط کیے تھے۔ پی ٹی آئی نے امریکی پی آر فرم کے ساتھ یہ معاہدہ خاموشی کے ساتھ کیا تھا۔ تاہم کچھ عرصے بعد ایک امریکی تھنک ٹینک ’’اٹلانٹک کونسل سائوتھ ایشیا سینٹر‘‘ کے ایک پاکستانی عہدیدار نے سوشل میڈیا پر بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔
دلچسپ امر ہے کہ عمران خان نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ریاستی سطح پر امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے اسی، پی آر یا لابنگ فرم ’’فینٹن آرلک‘‘ کی خدمات تیس ہزار ڈالر ماہانہ میں حاصل کی تھیں۔ یہ معاہدہ گزشتہ برس مارچ میں واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے اور فینٹن کے مابین ہوا تھا۔ تاہم جب ایک ماہ بعد عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا تو حکومتی سطح پر ہونے والا یہ معاہدہ ختم کرکے پی ٹی آئی نے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے اسی لابنگ فرم کو ہائر کرلیا اور فیس میں بھی پانچ ہزار ڈالر ماہانہ کی رعایت کرالی۔
امریکہ میں پی ٹی آئی کے حلقوں میں راہ و رسم رکھنے والے ذرائع کے مطابق جب تحریک انصاف کی قیادت نے محسوس کیا کہ بھاری فیس کے باوجود ’’فینٹن آرلک‘‘ مطلوبہ نتائج دینے میں موثر ثابت نہیں ہورہی ہے تو پھر خاموشی کے ساتھ رواں برس فروری میں ایک دوسری امریکی لابنگ فرم کے ساتھ معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگرچہ دونوں فرموں کی فیسیں پی ٹی آئی امریکہ کے عہدیداران نے ادا کیں، اس مقاصد کے لئے امریکہ میں پی ٹی آئی کے سپورٹرز سے عطیات اور چندہ لیا گیا۔ تاہم ان فرموں کی خدمات چیئرمین پی ٹی آئی کی مرضی سے حاصل کی گئیں۔
ذرائع کے بقول پی ٹی آئی امریکہ کے عہدیداران نے ان فیسوں کا بوجھ اس لئے اٹھایا کہ عمران خان کا اقتدار میں رہنا ان کے ذاتی مفاد میں ہے۔ امریکی لابنگ فرموں کے ساتھ معاہدے اور ان کی فیسیں ادا کرنے میں سجاد برکی اور عاطف خان نے بنیادی رول ادا کیا۔ یہ دونوں امریکہ میں پی ٹی آئی کے سرگرم عہدیداران ہیں۔ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں سجاد برکی کو وزیراعظم ہائوس میں کورونا سے متعلق اپنا سوشل اسسٹنٹ جبکہ عاطف خان کو محکمہ معدنیات اور کانوں کا چیئرمین بنایا تھا۔
دوسری امریکی لابنگ فرم ’’پرایا کنسلٹینٹس‘‘ کے ساتھ پی ٹی آئی امریکہ نے رواں برس اکیس فروری کو چھ ماہ کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے پر بھی پی ٹی آئی کے وکیل کے طور پر سلمان راولا نے دستخط کئے۔ یہ خدمات ماہانہ آٹھ ہزار تین سو تینتیس ڈالر (چوبیس لاکھ سے زائد پاکستانی روپے)کے عوض حاصل کی گئیں ۔ چھ ماہ کی مجموعی فیس انچاس ہزار نوسو اٹھانوے ڈالر (ایک کروڑ چوالیس لاکھ سے زائد پاکستانی روپے) بنتی ہے۔
’’پرایا‘‘ لابنگ فرم کی ذمہ داری ملی کہ وہ پاکستانی حکومت پر اثر انداز ہونے کے لئے امریکی ارکان کانگریس اور سینیٹرز کی مدد سمیت دیگر حربے استعمال کرے گی۔ بعد ازاںلابنگ فرم نے بریڈ شرمین سمیت دیگر پاکستان مخالف امریکی ارکان کانگریس اور سینیٹرز کو اس مقصد کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ یہ تمام ارکان کانگریس اور سینیٹرز اسرائیل اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بدترین مظالم کو نظر انداز کرکے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔ امریکی وزیر خارجہ کو خط لکھا گیا۔ مختلف سیمینارز کرائے گئے۔ مقصد صرف ایک ہی تھا کہ کسی طرح عمران خان کو سزا سے بچایا جاسکے اور سانحہ 9 مئی میں ملوث پی ٹی آئی کی دیگر قیادت اور کارکنوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ تاہم یہ حربے مکمل طور پر ناکام رہے۔ عمران خان کو نا اہلی کے ساتھ سزا ہوچکی۔ ان کے خلاف سانحہ 9 مئی سمیت دیگر کیسزکی تحقیقات بھی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ یوں اس صورتحال سے بچنے کے لئے امریکہ میں کی جانے والی ساڑھے 6 کروڑ روپے سے زائد کی سرمایہ کاری ڈوب گئی ہے۔
عمران خان کی گرفتاری پر اپنے سرکاری ردعمل میں امریکہ نے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ جب کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے لئے تمام اصولوں کو پامال کرکے بیان بازی کرنے والے بریڈ شرمین سمیت دیگر ارکان کانگریس نے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ البتہ بریڈ شرمین نے عمران خان کی گرفتاری کے قریباً ایک ہفتہ بعد جمعہ کو اپنے ایک کھوکھلے سے ٹویٹ میں کہا کہ ’’پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان ایک بار پھر جیل میں ہیں۔ منصفانہ عمل اور اس کی حفاظت کے لئے، ان کے وکلا اور خاندان کی ان تک رسائی کو یقینی بنانا چاہیے۔ ہمیں مناسب عمل اورقانون کی حکمرانی کا احترام دیکھنے کی ضرورت ہے‘‘۔
دوسری جانب امریکہ کے سابق مندوب برائے عراق و افغانستان زلمے خلیل زاد نے بھی چپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کو لے کر ان کا ٹویٹ اکائونٹ اب تک خاموش ہے۔ قبل ازیں عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت میں وہ وقتاً فوقتاً ٹویٹ کرتے رہتے تھے۔ چلے ہوئے کارتوس کے ان ٹویٹس سے امریکہ پہلے ہی اعلان لاتعلقی کرچکا تھا۔