اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )شمالی علاقہ جات میں بابوسر روڈ پر ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے پروفیسر حاجی راشد کا تعلق پنجاب کے شہر وہاڑی سے تھا۔وہ سیاح نہیں بلکہ یونیورسٹی آف بلتستان میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔قبل ازیں وہ یونیورسٹی آف ہری پور میں بھی لیکچرر کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔واضح رہے کہ قبل ازیں پولیسنے دعویٰ کیا تھا کہ چلاس میں بابوسر ٹاپ کے قریب ڈاکوؤں کی فائرنگ سےجاں بحق شخص ایک سیاح ہے جس کا تعلق پنجاب سے ہے تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے مارے گئے شخص پروفیسر راشد ہیں جو بلتستان یونیورسٹی میں تعینات تھے۔
فائرنگ سے کار ڈرائیور بھی زخمی ہوا۔ جبکہ گاڑی میں سوار دیگر چار مسافر محفوظ رہے۔مقتول پروفیسر کی میت پیر کی صبح ان کے آبائی گاؤں روانہ کردی گئی۔ لیکن شام تک وہ ناران کاغان پہنچی تھی۔ وہاں سے راولپنڈی اور پھر میلسی کا طویل سفر باقی تھا۔
مقتول پروفیسر کے سابق کولیگ اور یونیورسٹی آف ہری پور کے پروفیسر ڈاکٹر عبد اللہ خان نے "امت” کو بتایا کہ حال ہی میں پروفیسر راشد نے سیالکوٹ یونیورسٹی میں میڈیکل لیبارٹری ٹیکنالوجی کا ڈیپارٹمنٹ قائم کیا تھا اور وہاں شعبے کے سربراہ کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ پروفیسر راشد کو اسی دوران یونیورسٹی آف بلتستان میں یہی شعبہ قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور وہ گزشتہ چھ سات ماہ سے وہیں مقیم تھے۔انہوں نے یہاں بھی اپنا ہدف کامیابی سے مکمل کر لیا تھا اور اب متعلقہ شعبے میں داخلوں کا عمل شروع ہونے والا ہے۔
فائرنگ کا نشانہ بننے والی کار
ڈاکٹر عبداللہ کے مطابق اس دوران دریائے ستلج میں سیلاب کی وجہ سے قریبی دیہات زیر آب آنے کی خبریں ملنے پر پروفیسر راشد اپنے خاندان کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لیے ہنگامی طور پر پنجاب میں اپنے آبائی علاقے جانے کے لیے روانہ ہوئے تھے کہ راستے میں ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔اطلاعات کے مطابق ڈاکوؤں نے سڑک پر پتھر رکھ کر گاڑیاں لوٹنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا ۔ تاہم پروفیسر راشد جس گاڑی میں سوار تھے، اس کے ڈرائیور نے ڈاکوؤں کو دیکھتے ہی دوسری طرف ٹرن لیا جس پر ڈاکوؤں نے فائرنگ کر دی اور وہ موقع پر جاں بحق ہو گئے۔ علاقے کے مکینوں کے مطابق یہاں کافی عرصے سے اس طرح کی وارداتیں جاری ہیں ۔یہ مانسہرہ اور گلگت کی باؤنڈری پر واقع علاقہ ہے.
میت خراب نہ ہو جائے۔ اہل خانہ کے خدشات
مقتول پروفیسر راشد کے اہل خانہ کو خدشہ ہے کہ طویل سفر کے باعث میت خراب ہوسکتی ہے۔ بالخصوص اس صورت میں جب ان کے علاقے میں سیلابی صورتحال ہے، اس لئے اہل خانہ نے اعلٰی حکام سے اپیل کی کہ ان کا جسد خاکی ائر لفٹ کے زریعے جلد از جلد آبائی علاقے میں پہنچایا جائے، تاکہ جنازے تدفین کے مراحل ادا کیے جاسکیں۔
وزیر اعلٰی گلگت بلتستان نے نوٹس لے لیا