پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ درست قرار پایا تو نیب قوانین کے خلاف فیصلہ کالعدم ہوجائے گا، فائل فوٹو 
میڈیا  کی تنقید کو ویلکم کرتے ہیں، فائل فوٹو

چیف جسٹس بندیال کا چیچک زدہ دورغروب ہو گیا

امت رپورٹ:

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا چیچک زدہ دور رخصت ہوا۔ اپنے ڈیڑھ برس سے زائد عرصے کے دوران انہوں نے پارلیمنٹ کی آزادی پر وار کئے۔ چند مخصوص ساتھی ججز کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ کو عمران خان اور ان کی پارٹی کے لئے ’’ریلیف کیمپ‘‘ بنائے رکھا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ججوں کو تقسیم کیا۔

اہم حکومتی قوانین کے خلاف فیصلے دینے کے لیے اسمبلیوں کی تحلیل کا انتظار کیا۔ حتیٰ کہ آئین میں ترمیم جیسا سنگین الزام بھی ان پر لگا۔ اس ساری مشق کا حاصل یہ ہے کہ وہ پھر بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کے متعدد فیصلوں پر جھاڑو پھرنے کا امکان ہے۔

اس سلسلے میں کل (پیر) سے سپریم کورٹ میں شروع ہونے والی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ اس ایکٹ کے خلاف جسٹس عمر عطا بندیال کا حکم امتناع ختم کئے جانے کے قوی امکانات ہیں۔ آگے چل کر یہ ایکٹ درست قرار پا گیا تو نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ خود بخود کالعدم ہوجائے گا۔ نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ سننے والے بنچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے خود اپنے تحریری نوٹ میں کہا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس پر حتمی فیصلہ آنے تک آرٹیکل ایک سو چوراسی کی شق تین کے تحت تمام مقدمات پر سماعت روک دی جائے یا یہ مقدمہ سننے کے لئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ آٹھ رکنی بنچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر حکم امتناع جاری کر رکھا ہے۔ اس قانون کو آئینی طور پر درست یا قرار دیئے جانے کا یکساں امکان ہے۔ اگر یہ قانون درست قرار دیا جاتا ہے تو نیب ترامیم کے خلاف کیس کا فیصلہ قانون کی نظر میں کالعدم قرار پائے گا۔

واضح رہے کہ سابق اتحادی حکومت کی جانب سے منظور کئے جانے والے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت عوامی اہمیت کے آئینی معاملات پر بنچوں کی تشکیل ایک فرد واحد چیف جسٹس کے بجائے عدالت عظمیٰ کے تین سینئر ججوں پر مشتمل کمیٹی نے کرنی تھی۔ تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم بنچ نے اس قانون کے خلاف حکم امتناع جاری کرکے اسے معطل کردیا۔ نئے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کے بقول حکومتی قانون کو برقرار رکھا جاسکتا ہے یا کالعدم قرار دیا جاتا ہے، معطل کرنے کی کوئی مثال موجود نہیں۔

اب یہی کیس کل (پیر) سے سنا جائے گا۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے لئے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فل کورٹ تشکیل دیں گے اور اس ایکٹ کی معطلی ختم ہونے کے واضح امکان ہیں۔

اسی طرح آڈیولیکس کمیشن کو کالعدم قرار دیئے جانے سے متعلق جسٹس عمر عطا بندیال کا فیصلہ بھی اڑایا جاسکتا ہے۔ عدالتی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے آنے کے بعد ناصرف آڈیولیکس کمیشن بحال ہوگا بلکہ اس کمیشن کے سامنے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس سمیت انہیں خود بھی پیش ہونا پڑسکتا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کے بقول نئے چیف جسٹس آڈیولیکس سمیت دیگر کیسز کی انکوائری بھی کھولیں گے۔ کیونکہ جسٹس عمر عطا بندیال کے تمام احکامات ’’ریویوایبل‘‘ ہیں۔ سارے فیصلے کالعدم ہوں گے۔ اور ان کے خیال میں آڈیولیکس کیس میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بھی بلانا پڑے گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال تقریباً ایک برس سات ماہ تک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ ان کا یہ دور تنازعات سے بھرا تھا۔ وہ اپنی میراث میں زیر التوا چھپن ہزار سے زائد مقدمات چھوڑ کر گئے ہیں۔ حکومتی قوانین کے خلاف ان کے فیصلوں کو دیکھا جائے تو وہ سابق اتحادی حکومت کی موجودگی میں تو وہ ان کے بنائے گئے قوانین کو کالعدم قرار دینے کی جرات نہ کرسکے تاہم اسمبلیوں کے تحلیل ہوتے ہی وہ ’’شیر‘‘ بن گئے۔ پہلا کلہاڑا ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ پر چلایا۔ اس ایکٹ کے تحت از خود نوٹس کے مقدمات میں فیصلوں پر اپیل کا حق دیا گیا تھا۔

اس سے قبل آرٹیکل ایک سو چوراسی کی ذیلی شق تین کے تحت سنائے گئے فیصلوں کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انیس جون کو چیف جسٹس پاکستان عمرعطابندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے کیس کی چھ سماعتیں کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا اور تقریباً دو ماہ بعد قومی اسمبلی تحلیل ہوتے ہی گیارہ اگست کو سنادیا۔ کیونکہ انہیں خوف تھا کہ اسمبلی سیشن میں ان کے فیصلے کی بھد اڑائی جائے گی۔

ریویو آف ججمنٹس ایکٹ سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کو بہت بڑا ریلیف ملا تھا۔ اس قانون کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین نا اہلی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتے تھے۔ لیکن عمران خان کی مبینہ محبت میں گرفتار جسٹس بندیال کو یہ منظور نہیں تھا، چنانچہ حکومت کے اس قانون کو کالعدم قرار دینا انہوں نے عین ثواب سمجھا۔ اگلا مرحلہ آڈیو لیکس کمیشن کو اڑانے کا تھا۔ کیونکہ براہ راست ان کی ساس صاحبہ زد میں آرہی تھیں۔

چھبیس مئی کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم بنچ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کمیشن کو کام سے روک دیا۔ اس کمیشن کے خلاف عمران خان سمیت بیشتر درخواست گزار وہ تھے جو اس کمیشن کی زد میں آرہے تھے۔ جبکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کی سربراہی سنبھال لی۔

اس کے باوجود کہ کمیشن نے ان کی ساس صاحبہ کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات کرنی تھیں۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ جب سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کیس آیا تھا تو انہوں نے کم از کم اتنی اخلاقی جرات ضرور دکھائی تھی کہ اس کیس کو سننے والے بنچ سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ یاد رہے کہ آڈیو لیکس کے معاملے پر سابق وفاقی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا، جس میں بلوچستان ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شامل تھے۔

کمیشن نے جسٹس عطا بندیال کی ساس اور خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کے مابین گفتگو پر مبنی آڈیو لیک ، وکیل اور صحافی کے درمیان بات چیت کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے داماد کی عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے الزامات کی آڈیو لیک کی بھی انکوائری کرنی تھی۔ چیف جسٹس بندیال پر مشتمل بنچ نے پہلے کمیشن کو کالعدم قرار دیا اور اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد حکومت کے اس اعتراض سے متعلق درخواستوں کو بھی مسترد کردیا جو ان کے بنچ میں بیٹھنے کے خلاف دائر کی گئی تھی۔ جون میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ محفوظ کیا تھا اور قریباً تین ماہ بعد آٹھ ستمبر کو سنایا۔ یعنی اس کے لئے بھی حکومت کی مدت ختم ہونے کا انتظار کیا گیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال غالباً ملک کے پہلے چیف جسٹس تھے جنہوں نے آئین کی تشریح کے بجائے آئین میں ترمیم کرڈالی۔ مقصد پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانا تھا۔ اس کے نتیجے میں پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت گر گئی اور پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ پرویز الٰہی کی حکومت برسراقتدار آئی تھی۔ انہوں نے ریمانڈ کے دوران اپنے چہیتے عمران خان کو نیب کی تحویل سے نکلوا کر نئی عدالتی تاریخ رقم کی۔ جسٹس عمر عطا بندیال پر یہ سنگین الزام بھی لگا کہ انہوں نے اپنی ساس صاحبہ کو ممکنہ انکوائری سے بچانے کے لئے آڈیولیکس کمیشن کو اڑادیا۔ لیکن اس کمیشن کے خلاف پینتیس صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سارا نزلہ سابق اتحادی حکومت پر گرایا اور اسے عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دیا۔ لیکن دیگر ذمہداران کے بارے میں ایک لفظ بھی لکھنے کی ہمت نہ کرسکے۔

اپنے دور میں چیف جسٹس بندیال ، سڑک چھاپ یوٹیوبرز سے پس پردہ ملاقاتیں بھی کرتے رہے کیونکہ عمران خان کے ہائبرڈ دور میں پنپنے والے یہ برائلر یوٹیوبرز ان کی شان میں قصیدے پڑھتے تھے۔ دنیا کے کون سے ملک کا چیف جسٹس اس نوعیت کی ملاقاتیں کرتا ہے؟ انصاف دینے والے قاضی کے لئے تو کہا جاتا ہے کہ وہ اخبار سمیت کسی قسم کا میڈیا نہیں دیکھتا اور اپنی شوشل سرگرمیوں کو بھی محدود رکھتا ہے۔ تاکہ اس کے فیصلوں پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

جسٹس عمر عطا بندیال غالباً پاکستان کے وہ پہلے چیف جسٹس ہیں جو فل کورٹ ریفرنس سے بھاگ نکلے، جسے الوداعی ریفرنس بھی کہا جاتا ہے۔ ریٹائرمنٹ سے ایک دن پہلے اس الوداعی ریفرنس میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے دور کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس موقع پر عموماً ججز کے اہل خانہ بھی موجود ہوتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کو خدشہ تھا کہ الوداعی ریفرنس میں ان کے متنازعہ ترین دور کا بے رحم پوسٹ مارٹم کیا جائے گا، لہٰذا انہوں نے اس سے پہلو تہی میں ہی عافیت جانی۔