محمد اطہر فاروقی:
کورونا کے بعد نئے وائرس نپاہ کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر صوبہ سندھ میں بھی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ محکمہ صحت سندھ نے ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے تمام اسپتالوں کے ڈائریکٹر اور ایم ایس کو تحریری لیٹر جاری کیے ہیں۔
ملائیشیا سے شروع ہونے والا نپاہ وائرس 4 بار بھارت میں پھیل چکا ہے۔ بھارت میں 2 افراد وائرس سے ہلاک ہو چکے۔ جبکہ 20 افراد شدید متاثر ہیں۔ تحقیق کے مطابق اموات کی شرح 74 فیصد ہے۔ نپاہ وائرس کی علامات میں سر درد، جھٹکے لگنا، بخار اور کومہ میں جانا شامل ہے۔ طبی ماہرین کے بقول نپاہ وائرس کی کوئی ویکسین نہیں ہے۔ تاہم بروقت علاج سے وائرس سے بچا سکتا ہے۔ وائرس جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔
بھارت میں پھیلنے والے خطرناک وائرس ’نپاہ‘ کے پاکستان میں بھی پھیلاؤ کا خطرہ ہے۔ جس پر محکمہ صحت سندھ نے سرکاری اسپتالوں کے سربراہان کو ایڈوائزری جاری کردی ہے۔ ’’امت‘‘ کو موصول ایڈوائزری کے مطابق نپاہ (nipah) نامی وائرس کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ کی جانب سے صوبہ بھر کے اسپتالوں کے ایم ایس، ڈائریکٹرز اور محکمہ لائیو اسٹاک کو الرٹ رہنے کی ہدایت کردی ہے۔
ایڈوائزری کے مطابق نپاہ وائرس جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے انسانوں میں تیزی سے پھیلتا ہے۔ وائرس کی ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، جسم میں درد، کوما سمیت دیگر علامات شامل ہیں۔ وائرس کے حوالے سے سب سے پہلے صوبہ پنجاب میں الرٹ جاری کیا گیا۔ جس کے بعد منگل کے روز محکمہ صحت سندھ نے الرٹ جاری کیا۔ تاہم اس وقت پاکستان سمیت سندھ بھر میں پناہ وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
’’امت‘‘ کی جانب سے نپاہ وائرس کے حوالے سے تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ نپاہ وائرس سب سے پہلے ملائیشیا میں دریافت ہوا تھا۔ جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ امریکہ میں صحت عامہ کے نگراں ادارے سینٹرل فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق نپاہ وائرس پہلی مرتبہ 1999ء میں ملائیشیا اور سنگاپور میں خنزیر اور انسانوں میں بیماری کے پھیلاؤ کے بعد دریافت ہوا تھا۔ اس بیماری کے نتیجے میں تقریباً 300 کیسز رپورٹ ہوئے اور 100 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس کے بعد بھارت اور2004ء میں بنگلہ دیش کے کچھ حصوں میں اس وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے۔
اس دوران یہ وائرس ایک سے دوسرے شخص کے درمیان پھیلتا چلا گیا۔ نپاہ ایک زونوٹک وائرس ہے۔ یعنی یہ ابتدائی طور پر جانوروں سے انسانوں میں پھیلتا ہے۔ تحقیقات کے مطابق نپاہ وائرس انسانوں میں متاثرہ جانوروں سے براہ راست رابطے جیسے چمگادڑ یا خنزیر یا ان کے جسمانی رطوبتوں سے لگ سکتا ہے۔ وائرس سے متاثرہ شخص یا اس کی جسمانی رطوبت سے قریبی رابطہ ہونا بھی وائرس سے متاثر کر سکتا ہے۔ اس وقت نپاہ وائرس چوتھی بار بھارت میں پھیل رہا ہے۔ جس سے 2 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ جبکہ 20 افراد متاثر ہیں۔ 20 افراد میں سے 2 افراد میں نپاہ کی تصدیق بھی کی جا چکی ہے۔ نپاہ وائرس سے متاثرہ افراد میں اموات کی شرح 74 فیصد ہے۔
نپاہ وائرس کے حوالے سے جناح اسپتال کے جنرل فزیشن ڈاکٹر عمر سلطان نے بتایا کہ ’’نپاہ‘‘ جانوروں سے انسانوں میں آسانی سے منتقل ہونے والا خطرناک وائرس ہے۔ جبکہ یہ ایک سے دوسرے انسان میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔ اس وائرس کی علامات میں شدید بخار، سر درد، سر میں سوزش، گلے میں سوزش، کھانسی، سانس لینے میں دشواری، جسم میں درد، تھکاوٹ اور بے چینی شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نپاہ وائرس عام طور پر سوروں، چمگادڑوں، کتوں، گھوڑوں اور اسی طرح کے دیگر گھریلو جانوروں میں بھی ہو سکتا ہے۔ جہاں سے یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق مذکورہ وائرس میں مبتلا افراد کے 75 فیصد ہلاک ہوجانے کے امکانات ہوتے ہیں۔ تاہم اگر فوری طور پر بیماری کی تشخیص ہوجائے تو اچھے نتائج مل سکتے ہیں۔
وائرس کا ابھی کوئی علاج یا دوا دستیاب نہیں۔ تاہم ماہرین صحت علامات کے مطابق مریض کا علاج کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس انسانی زندگی کے لیے اس لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے، کہ اس کی تشخیص بہت دیر سے ہوتی ہے اور متاثرہ شخص میں بعض مرتبہ ایک ماہ بعد علامات سامنے آتی ہیں اور تب تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔