محمد قاسم :
پشاور کے چوک یادگار میں غیرقانونی کرنسی کے لین دین کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی کے نتیجے میں 300 سے زائد دکانوں کو بند ہوئے تقریباً 2 مہینے ہونے کو ہیں۔ ان غیرقانونی کرنسی ڈیلرز کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے ایکسچینج کو ایک ماہ میں بڑے کرنسی ایکسچینج میں ضم کرنے یا کاروبار ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
چھ ستمبر کو جاری کیے گئے سرکلر کو کرنسی ایکسچینج کمپنیوں نے پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا تھا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ اس سرکلر کو معطل کر دیں۔ تاہم پشاور ہائیکورٹ نے اسٹیٹ بینک کے سرکلر کو برقرار رکھتے ہوئے کرنسی کمپنیوں کو دونوں میں سے ایک آپشن اختیار کرنے کی ہدایت کی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا فیصلہ برقرار رکھا۔
دو رکنی بینچ کے تحریری فیصلے کے مطابق درخواست گزار کمپنیاں پشاور میں منی چینجر فرنچائز چلا رہی ہیں۔ جنہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے لائسنس لے رکھے ہیں۔ تاہم حال ہی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 6 ستمبر 2023ء کو ایک سرکلر جاری کر کے انہیں 2 آپشن دیئے کہ ایک ماہ کے اندر اندر یا تو اپنے یہ فرنچائز ختم کر کے انہیں اپنی مرکزی برانچوں میں ضم کر دیں یا پھر انہیں فروخت کر دیں۔ جس کے خلاف انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
درخواست گزاروں نے موقف اپنایا کہ یہ سرکلر فارن ایکسچینج ریگولیشنز ایکٹ 1947ء کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اسٹیٹ بینک سے باضابطہ اجازت لے رکھی ہے اور قواعد و شرائط کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اسٹیٹ بینک کے وکیل عالم زیب خان نے عدالت کو بتایا کہ اسٹیٹ بینک کے پاس ایسے معاملات ریگولیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ تمام منی چینچر کمپنیوں کو وقتاً فوقتاً پالیسی گائیڈ لائنز جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ پورے ملک میں اس فیصلے کو ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے چیلنج نہیں کیا گیا۔ بلکہ اس فیصلے کو ان کمپنیز کیلئے مفید قرار دیا جارہا ہے۔ صرف پشاور میں اس کو چیلنج کیا گیا۔
عدالت نے درخواستیں خارج کرتے ہوئے قرار دیا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان چونکہ ریگولیٹری ادارہ ہے۔ لہٰذا اسے ایسے معاملات میں پالیسی گائیڈ لائنز جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ دوسری جانب چوک یادگار میں اس فیصلے کے بعد ویرانی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ بہت سی کمپنیوں نے یہ امید لگا رکھی تھی کہ ہائی کورٹ شاید اس سرکلر کو معطل کر دے گی اور تمام دکانیں دوبارہ کھل جائیں گی۔ لیکن اب عدالتی فیصلے کے بعد گزشتہ 60 برسوں سے قائم صارفہ مارکیٹ ہمیشہ کیلئے بند ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے اور لوگوں نے متبادل کاروبار پر غور شروع کر دیا ہے۔
ایک تاجر احمد خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ لوگوں کے کروڑوں روپے ڈوب گئے ہیں۔ کیونکہ لوگوں نے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔ تاہم انتظامیہ کو اس فیصلے کے بعد کارروائی کرنے کیلئے جواز مل گیا ہے اور چوک یادگار جو غیر ملکی کرنسیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، اب ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ چوک یادگار میں ماضی میں بھی کارروائیاں کی گئی تھیں۔ لیکن چند روز کاروبار بند ہونے کے بعد دوبارہ شروع ہو جاتا تھا۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ اس بار عدالتی حکم کی وجہ سے انتظامیہ کو اب کاروبار کو بند کرنے کا مکمل اختیار مل گیا ہے۔
دوسری جانب سیکورٹی ذرائع کے مطابق چوک یادگار میں غیرقانونی کاروبار کی وجہ سے ماضی میں کئی مسائل کا سامنا رہا ہے۔ لیکن کرنسی کے کاروبار کو قانونی طور پر کرنے کی اجازت ہو گی۔ ذرائع کے مطابق چوک یادگار سے افغانستان اور ایران تک کرنسی کی غیر قانونی سپلائی ہوتی رہی۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
پشاور کا چوک یادگار حوالہ ہنڈی کا مرکز تھا۔ اب یہ مرکز ختم ہو گیا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ گھروں میں قائم غیرقانونی کرنسی کے کاروبار کے خلاف بھی یکم نومبر سے کارروائی کی جائے گی۔ کیونکہ اس وقت تحقیقاتی ادارے غیر قانونی مقیم مہاجرین کی فہرستیں تیار کرنے میں مصروف ہیں۔