علی جبران : پہلی قسط
کرپشن اسکینڈل میں گرفتار تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر چند برس میں ارب پتی بن گئے۔ دو ہزار دس تک ان کے پاس اپنی گاڑی نہیں تھی اور وہ دوستوں کی گاڑیاں استعمال کیا کرتے تھے۔ جبکہ دو ہزار تیرہ کا الیکشن لڑنے کیلیے ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ چنانچہ انہیں اپنا پلاٹ بیچنا پڑا۔ لیکن الیکشن کے بعد ان کے حالات بدلنا شروع ہو گئے۔ لکشمی دیوی ایسی مہربان ہوئی کہ تجوریاں اور الماریاں سب بھر گئیں۔
پہلے اسپیکر صوبائی اسمبلی اور پھر اسپیکر قومی اسمبلی بننے کے عرصے کے دوران ان کی دولت اور اثاثوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ بظاہر اسد قیصر پرائیویٹ اسکولوں کا ایک سلسلہ چلا رہے ہیں۔ جسے ان کے کاغذات نامزدگی میں ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اس اسکول کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف شہروں میں کیمپس ہیں۔ لیکن قریبی لوگ جانتے ہیں کہ ان کے اصل اثاثوں کی مالیت اسکولوں کی کمائی سے کہیں زیادہ بلکہ بے تحاشہ ہے۔
ان اثاثوں اور دولت کا سلسلہ بیرون ملک تک پھیلا ہوا ہے۔ اسد قیصر نے نہ صرف خود دولت کمانے میں دن دگنی رات چوگنی ’’ترقی‘‘ کی۔ بلکہ وہ اپنے قریبی لوگوں کیلئے بھی ’’پارس‘‘ بن گئے (پارس ایک خیالی پتھر ہے۔ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر یہ لوہے سے چھو جائے تو اسے سونا بنا دیتا ہے)۔ اسد قیصر سے جڑے ایک معمولی ڈرائیور کا بھی آج انگلینڈ میں ایک بڑا ورکشاپ اور کاروبار ہے۔
انہوں نے اپنا کوئی بھائی غریب نہیں چھوڑا۔ بہنوئی سے لے کر کزنز اور کئی دوست بھی خوشحالوں کی فہرست میں ٹاپ پر پہنچا دیئے۔ اس ساری کہانی میں فلمی ٹچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ انہوں نے محض دس برس کے مختصر عرصے میں انجام دیا۔ اسد قیصر کی قسمت کا تالا اس وقت کھلا جب انہوں نے جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم پاسبان کو خیر باد کہہ کر تحریک انصاف جوائن کی۔ اپنی قسمت کا تالا کھولنے کیلئے انہوں نے جو چابیاں استعمال کیں۔ اس کی داستان بڑی ہوشربا ہے۔
اسد قیصر نے پچپن برس پہلے خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی کے گاؤں مرغوز میں واقع ایک پانچ مرلے کے گھر میں آنکھ کھولی۔ وہ اپنے چار بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے بڑے ہیں۔ نوجوانی میں کوٹھا کالج صوابی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم منتخب ہوئے۔ گریجویشن کے بعد سن پچانوے میں پاسبان کے ڈویژنل صدر بنے۔ اسد قیصر کے ایک قریبی ساتھی بتاتے ہیں ’’وہ پاسبان کے زیر انتظام چیئرٹی اسکول چلایا کرتے تھے۔ انیس سو چھیانوے میں تحریک انصاف کا قیام عمل میں آیا تو پاسبان کو چھوڑ کر اس کا حصہ بن گئے اور صوابی میں پی ٹی آئی کے ضلعی صدر بنا دیئے گئے۔ ان دنوں تحریک انصاف کو کوئی گھاس نہیں ڈالا کرتا تھا۔ تاہم ایک سلیبرٹی کے طور پر عمران خان کا ایک بڑا فین کلب موجود تھا۔
عمران خان کی اس مقبولیت کو کیش کرانے کیلئے اسد قیصر اکثر ان کو اپنے اسکول لے آتے تھے۔ تاکہ ان کے اسکول کی اہمیت بڑھ جائے۔ اس موقع پر وہ علاقے کے تیس چالیس لوگ بھی جمع کرلیا کرتے تھے۔ یوں نوزائیدہ سیاسی رہنما عمران خان کی تسکین بھی ہوجایا کرتی تھی۔ پارٹی کی غیر مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ ستانوے کے الیکشن میں چیئرمین عمران خان اور اسد قیصر سمیت ملک بھر میں تحریک انصاف کے تمام امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئی تھیں۔ دو ہزار دو میں بھی صرف ایک سیٹ مل سکی۔ صورت حال یہ تھی کہ عہدے دار بھی ملنا مشکل تھے۔ ان حالات کے دوران دو ہزار آٹھ میں اسد قیصر کو صوبائی صدر بنادیا گیا‘‘۔
پھر پی ٹی آئی کی حالت بتدریج بہتر ہونے لگی۔ اسے اب خیبرپختونخوا سے بھی چندہ ملنا شروع ہو گیا تھا۔ بطور صوبائی صدر یہ سارے معاملات اسد قیصر دیکھا کرتے تھے۔ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک سابق پی ٹی آئی عہدے دار کے بقول چندے اور فنڈز ملنے سے جہاں صوبے میں پارٹی کا ڈھانچہ مضبوط ہورہا تھا۔ وہیں اسد قیصر کی مالی حالت بھی بتدریج بہتر ہو رہی تھی۔ بہت سوں کو شکایت تھی کہ چندے کا ایک حصہ جیب میں جا رہا ہے۔ پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔
دو ہزار دس میں اسد قیصر نے پہلی بار اپنی ذاتی گاڑی خریدی۔ یہ ایک پرانے ماڈل کی لینڈ کروزر تھی۔ اس سے قبل اسد قیصر ایک پرانی ڈاٹسن میں گھوما کرتے تھے۔ جو ان کے دوست طاہر کی تھی۔ کبھی کبھار وہ سابق ایم پی اے حاجی رنگیز خان کی گاڑی بھی مانگ لیا کرتے تھے۔ جبکہ اراضی میں بھی کچھ انویسٹمنٹ کی۔ لیکن ابھی ’’کھلا کھاتا‘‘ شروع نہیں ہوا تھا۔
دو ہزار تیرہ میں تحریک انصاف خاصی مقبول ہوچکی تھی کہ اسے اب وہ چھتری میسر تھی۔ جس کے سائے میں کوئی بھی پارٹی اقتدار کی طرف جاتی ہے۔ دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا۔ خیبرپختونخوا میں صوبائی صدارت کیلئے پرویز خٹک اور اسد قیصر میں کانٹے کا مقابلہ تھا۔ دو ہزار سات اور آٹھ میں پارٹی کی کوئی حثیت نہیں تھی تو عہدوں کی بھی اتنی زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ تب صوبائی قیادت آسانی سے اسد قیصر کی جھولی میں ڈال دی گئی تھی۔ لیکن دو ہزار تیرہ میں صورت حال یکسر مختلف تھی۔
سب کو دکھائی دے رہا تھا کہ مرکز نہیں تو کم از کم خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو اقتدار ملنے والا ہے۔ اس لئے صوبائی صدارت سمیت صوبے کے ہر پارٹی عہدے کی اہمیت اور بھاؤ بڑھ گئے تھے۔ صوبائی صدر کے عہدے کیلئے اسد قیصر، پرویز خٹک اور مراد سعید مد مقابل تھے۔ تاہم اسد قیصر ستّر ووٹ لے کر پی ٹی آئی کے صوبائی صدر منتخب ہوگئے۔ جبکہ پرویز خٹک اور علی مراد کو بالترتیب صرف چوّن اور پچیس ووٹ ملے۔
اس وقت اسد قیصر گروپ کے ایک اہم رکن نے بتایا ’’پرویز خٹک ہر صورت صوبائی صدارت کا الیکشن جیتنا چاہتے تھے۔ کیونکہ انٹرا پارٹی الیکشن کے فوری بعد عام انتخابات تھے اور پارٹی ٹکٹ دینے میں صوبائی صدر کا اہم رول ہوتا ہے۔ تاہم ہم نے خلاف ضابطہ شوکت یوسفزئی کے ضلع کے متعدد ووٹ توڑ کر پرویز خٹک کی ساری کیلکولیشن تہس نہس کردی۔ یوں پرویز خٹک ہار گئے اور اسد قیصر نے میدان مار لیا‘‘۔
انٹرا پارٹی الیکشن کے بعد دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات آگئے۔ اسد قیصر نے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی دونوں نشستوں کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ الیکشن مہم کیلئے بڑے پیمانے پر رقم کی ضرورت تھی۔ اسد قیصر اپنی پارٹی کے ایک متمول عہدے دار کے پاس پہنچ گئے اور اپنا دکھڑا سنایا اور اسے اپنا ایک پلاٹ خریدنے کی پیشکش کی۔ تاکہ الیکشن اخراجات کا بندوبست کر سکیں۔ یہ دس کینال کا پلاٹ جہانگیرہ روڈ صوابی پر واقع ہے۔ پارٹی عہدے دار نے ایک کروڑ روپے میں یہ پلاٹ خرید لیا۔
دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات ہوگئے۔ پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا میں اکثریت حاصل کی۔ اسد قیصر نے قومی اور صوبائی دونوں اسمبلیوں کی نشستیں جیت لی تھیں۔ تاہم صوبائی اسمبلی کی سیٹ اپنے پاس رکھی اور قومی اسمبلی کی نشست خالی کرکے اس پر اپنے بھائی کو ضمنی الیکشن لڑوایا۔ اسد قیصر گروپ کے حامی انہیں وزیراعلی خیبرپختونخوا بنوانا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی کوشش ناکام رہی اور پرویز خٹک یہ منصب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
جبکہ اسد قیصر اسپیکر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ یہ منصب ملنے کے محض چار ماہ بعد اسد قیصر اپنے اسی پارٹی عہدے دار کے پاس پہنچ گئے جسے پلاٹ فروخت کیا تھا اور اسے کہا کہ وہ اپنا پلاٹ واپس خریدنا چاہتے ہیں۔ لیکن عہدے دار نے بتایا کہ وہ یہ پلاٹ آگے بیچ چکا ہے۔ اسے حیرانی تھی کہ اتنی جلدی اسد قیصر نے دوبارہ اتنے پیسوں کا انتظام کیسے کرلیا۔ یہیں سے ’’لکھ پتی‘‘ سے ’’ارب پتی‘‘ بننے کی داستان شروع ہوتی ہے۔ ( جاری ہے )