’’ سقوط غزہ‘‘ کے بعد خطےمیں اسرائیلی اجارہ داری کا گھناؤنا مذاق

کراچی (امت خاص) امریکا کی مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری اور اسرائیل کی غزہ پر جنگ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ فلسطین میں جنگی جرائم کے ارتکاب میں مصروف اسرائیل کو بچانے کی کوششوں نے امریکہ کو ایک اور جنگ میں ملوث کر دیا ہے جس کے متعلق خطرہ ہے کہ وہ پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ الجزیرہ میں عرب محقق مروان بشارت کے کالم میں بتایا گیا کہ اسرائیل کے غزہ پر حملے کے فوری بعد بائیڈن انتظامیہ نے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کوعرب دارالحکومتوں کی جانب روانہ کیا تاکہ وہ اسرائیل کے وحشیانہ حملے کی بولی لگائیں اوراسرائیلی فوج کو غزہ میں ’’کام ختم کرنے‘‘ کیلئے وقت مل سکے۔عرب قیادت نے، عوامی سطح پر ہی سہی، جنگ بندی کے بغیر بعد کے معاملات پر گفتگو سے ہی انکار کر دیا۔بلنکن نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کی، عباس نےفلسطینی ریاست کے قیام کیلئے سنجیدہ کوششوں اور جامع امن معاہدے کے تناظر میں غزہ کی حکومت سنبھالنے پر رضامندی ظاہر کی، یہ یقینی طور پر ششدر کر دینے والا اقدام ہے۔محمود عباس کا خیال ہے کہ وہ حماس کی جگہ غزہ پر حکومت کر سکتے ہیں۔

کیا سنگین مذاق ہے!اسرائیل کے لڑاکا طیاروں اور ٹینکوں کی پشت پر بیٹھ کر غزہ میں آکر حکومت کرنے کا محض خیال ہی احمقانہ ہے۔عباس اور ان کے ساتھی اس فریب میں مبتلا ہیں کہ اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ پر ان کی حکومت قائم کرنے کیلئے اپنا خون بہا رہا ہے اور اپنا خزانہ خرچ کر رہا ہے۔ اگر وہ یقین رکھتے ہیں کہ جنگ کے بعد فاتح اسرائیل ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور مشرقی بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنانے میں ان کی مدد کرے گا، تو چین میں ایک پُل میری ملکیت ہے جو میں انہیں فروخت کرنا چاہتا ہوں(طنزاً)۔ صدر جوبائیڈن ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر سیاسی سرمایہ کیوں خرچ کریں گےجبکہ یہ انتخابات کا سال بھی نہیں ہے۔اسرائیل میں حکومت تشکیل دینے والے فسطائی اور جنونی رہنمافلسطینیوں کو مکمل طور پر بے دخل کرنے کے نت نئے طریقے سوچ رہے ہیں، نہ کہ انہیں (اپنی ہی) ریاست دینے کیلئے۔موجودہ حالات میں ایک صورت یہ ہے کہ امریکا اسرائیل پر دباؤ ڈالے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام مغربی کنارے کے آدھے حصے پر ایک آدھی ریاست قبول کرے، بدلے میں عرب ممالک کیساتھ معمول کے تعلقات اور مزید امداد کا وعدہ کیا جا سکتا ہے۔

تقریباً 20سال قبل عراق پر حملے کے وقت صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی دو ریاست حل کا وژن پیش کیا تھا اور اس مقصد کے حصول کیلئے یورپی طاقتوں کے ساتھ مل کر ایک بین الاقوامی روڈمیپ تیار کیا تھا۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ مزید فلسطینی علاقوں پرقبضے، غیرقانونی آبادکاری، غزہ کے محاصرے اور جنگوں نے خطے میں تباہی مچا دی۔درحقیقت، امریکا کی غیر مشروط حمایت کی وجہ سےکوئی بھی اسرائیلی رہنما امن کا ساتھ نہیں دے گا، نہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ ختم کرے گا اور نہ ہی صیہونی نسل پرستانہ نظام کا خاتمہ کرے گا۔صرف عوامی مزاحمت اور مجموعی عالمی برادری کی براہ راست شمولیت ہی اسرائیل کو کسی تصفیے پرمجبور کر سکتی ہے، جیسا کہ فرانس اور جنوبی افریقہ کے معاملے میں تھا جو اپنے نسل پرست نو آبادیاتی منصوبے ترک کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔