ناقص مصنوعات کینسر سمیت دیگر خطرناک بیماریوں کا موجب بن سکتی ہیں، فائل فوٹو
 ناقص مصنوعات کینسر سمیت دیگر خطرناک بیماریوں کا موجب بن سکتی ہیں، فائل فوٹو

مضرِ صحت کاسمیٹکس کیخلاف بھرپور کارروائی کا فیصلہ

نواز طاہر :

خوبصورتی میں اضافے کا دعویٰ کرنے والی غیر معیاری کریموں، ادویات اور انجکشنز کیخلاف پنجاب حکومت نے کریک ڈائون تیز کرنے کا تیاری کرلی۔ اس کا باضابطہ طریقِ کار بھی جلد طے ہونے والا ہے۔ جبکہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ تحفظات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اس کریک ڈائون سے بڑے آئوٹ لیٹس کے ساتھ ساتھ چھوٹی سطح پر روزگار کے مواقع بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ تاہم صوبائی حکومت ان اندیشوں اور خدشات کو رد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ کسی کا روزگار متاثر کرنا مقصود نہیں، لیکن شہریوں کو خطرناک بیماریوں سے بچانے کیلئے حفاظتی اقدامات ناگزیر ہیں۔ یہ اقدامات ہیلتھ کیئر کمیشن کے ذریعے اتائیوں کیخلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کی طرز پر ہوں گے۔

واضح رہے کہ اس وقت لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں کی مارکیٹ میں بڑی تعداد میں ایسی کریمیں، ادویات اور ٹیکے مختلف ناموں سے بک رہے ہیں جو نہ صرف کلینکس، بیوٹی پارلرز اور بیوٹی سیلونز، بلکہ گھروں میں جاکر بیوٹی و تھیراپی سروسز فراہم کرنے والے والے کارکنان نجی حیثیت میں استعمال کررہے ہیں۔ ایسے حقائق بھی سامنے آئے کہ ان غیر معیاری مصنوعات کا استعمال جِلدی امراض کے ساتھ ساتھ کینسر، سانس، الرجی اور امراضِ قلب سمیت کئی بیماریوں کا موجب بن رہا ہے۔

جبکہ استعمال کرنے والوں کو ان کے بارے میںعلم ہی نہیں اور بہت سا میٹریل جعلی ناموں کے علاوہ مقامی سطح پر بھی تیار کرکے سپلائی اور استعمال ہورہا ہے۔ اس کے سدباب پر ابتدائی کام چھ سال پہلے شروع ہوا تھا۔ لیکن اس میں پیش رفت رک گئی تھی۔ تاہم کچھ کریمیں، ٹیکے اور ادویات کے بارے میں پنجاب حکومت نے نوٹس لیتے ہوئے ان کا استعمال ممنوع قرار دیدیا اور کچھ پر پابندی بھی لگائی گئی تھی۔ لیکن یہ کارگر ثابت نہ ہوسکی تھی۔

جبکہ اس مقصد کیلئے سنہ انیس سو چھہتر کے ڈرگ ایکٹ میں ترمیم بھی تجویز کی گئی تھی، جو پنجاب اسمبلی میں مختلف مراحل پر زیر بحث رہی۔ لیکن اسمبلی ختم ہونے کا اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ اس ترمیم میں تجویز کیا گیا تھا کہ ادویات کے ساتھ ساتھ کاسمیٹکس اشیا بھی قانون کا حصہ ہوںگی اور جو سزائیں غیر معیاری و ملاوٹ شدہ ادویات کی تیاری، اسٹاک اور خریدو فروخت پر ہوںگی، ان کا اطلاق کاسمیٹکس پر بھی ہوگا۔

اب پنجاب کی نگران حکومت نے یہ معاملہ ایک بار پھر ٹیک اپ کیا ہے اور اس میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اظہار نگراں وزیر صحت ڈاکٹر جمال نے پنجاب کے ضلعی ڈرگز کوالٹی کنٹرول بورڈز کے سیکرٹریز کی کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ غیر رجسٹرڈ بیوٹی کریموں، ٹیکوں، اور ادویات پرپابندی لگائی جاچکی ہے۔

صرف ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی منظورشدہ بیوٹی کریم، دوائیں اور انجیکشنز استعمال کیے جائیں۔ کیونکہ غیر معیاری بیوٹی کریمز پیچیدہ بیماریوں حتیٰ کہ کینسر کا باعث بن رہی ہیں۔ جب کہ صرف کوالیفائیڈ اسکن اسپیشلسٹ اور سرجن ہی بیوٹی انجکشن لگا سکتے ہیں۔ چنانچہ بیوٹی انجکشن لگانے والے غیر مستند افراد کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کیا جائے۔ صوبے میں تمام بیوٹی پارلرز کی قانونی حیثیت چیک کی جائے اور ہیلتھ کیئر کمیشن کی مشاورت سے بیوٹی پارلرز کے لیے ایس او پیز بنائے جائیں۔

نگران حکومت کے اس اعلان کے بعد بیوٹی پارلرز کے ساتھ ساتھ نجی اور نچلی سطح پر کام کرنے والے کارکنوں یں بھی سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ مختلف میڈیا ہائوسز میں فرائض انجام دینے والی میک اپ آرٹسٹ راحیلہ یعقوب نے ایک طرف حکومت کے اس اقدام کو مثبت اور انسانی جان کے تحفظ کیلئے اہم قراردیا ہے تو دوسری جانب ان کا کہنا ہے کہ اس کا استعمال بھی روایتی قوانین کے کمزور افراد پر طاقت کے طورپر استعمال کرنے جیسا ہوسکتا ہے اور ممکنہ طور پر بیوٹی ورکرز مشکلات کا شکار ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ بڑے بیوٹی ہائوسز تو لمبے ہاتھوں والے اور طاقتور لوگوں کے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ کارکنان کو بھی تحفظ دیا جائے بلکہ اس شعبے کو باقاعدہ انڈسٹری کا درجہ دے کر ان کی ملازمت کو بھی قانونی تحفظ دیاجائے۔

زیادہ تر بیوٹی ورکرز زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ، وہ استعمال ہونے والے میٹریل میں تجربے کی بنیاد پر ہی ملاوٹ شدہ یا غیر معیاری ہونے کا تعین کرسکتے ہیں۔ لاعلمی میں اس کے استعمال سے اگر کوئی خاندان کا واحد کفیل اس پابندی یا قانون ضابطے کی بھینٹ چڑھ گیا تو سارا خاندان برباد ہوسکتا ہے اور ان کا چھوٹا موٹا کاروبار بھی ٹھپ ہوسکتا ہے ۔ اسی شعبے سے تعلق رکھنے والے علی لکی اعتراف کرتے ہیں کہ مارکیٹ میں غیر معیاری، جعلی اور ملاوٹ شدہ کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر تیار کیا جانے والا میٹریل فروخت اور استعمال ہوتا ہے۔

یہ استعمال نامور بیوٹی اداروں میں بھی ہوتا ہے جہاں کوئی شک بھی نہیں کرتا اور ہمارے جیسے چھوٹے سیٹ اپ کے لوگ اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ جب اس معاملہ پنجاب کے ڈرگ کنٹرولر ڈاکٹر سہیل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انسانی زندگی اور صحت کو سب پر اولیت حاصل ہے۔ حکومت کسی کے کاروبار کو متاثر نہیں کرنا چاہتی۔ ہم ایک جامع شفاف طریقِ کار طے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جس میں جملہ امور خصوصاً کارکنان اور ان کے روزگار کا خاص طور پر خیال رکھا جائے گا۔