علی جبران :
پی ٹی آئی کے بانی رہنما اکبرایس بابر کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف ایک ’’کٹی پتنگ‘‘ ہے، جو اپنے مقصد سے کٹی تو پہلے اسے اے ٹی ایمز نے لوٹا ، پھر اجرتی سیاستدانوں نے لوٹا۔ اس کے بعد ان کنگلوں نے لوٹا جواس وقت ارب پتی ہیں۔ اب وکلا کی باری ہے۔
وکیلوں کا ایک ان پروفیشنل گروپ ہے جو پارٹی پر قبضہ کرنے جارہا ہے۔ لیکن میں یہ قبضہ ختم کراکے دم لوں گا۔ انہوں نے حامد خان، اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کو مناظرے کا کھلا چیلنج دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تینوں کسی بھی فورم پر آمنے سامنے بیٹھ کر انہیں غلط اور خود کو درست ثابت کردیں کہ وہ پی ٹی آئی پر قبضہ اور فراڈ انٹرا پارٹی الیکشن کی تائید کرکے آئین وقانون کی پاسداری کر رہے ہیں یا پامال کر رہے ہیں۔ اکبرایس بابرسے ایک تازہ انٹرویو میں ’’امت‘‘ نے ان تمام موضوعات پر تفصیلی بات چیت کی جو نذر قارئین ہے۔
س: پارٹی میں نووارد وکلا کی بات تو اپنی جگہ جو وکیل (حامد خان ) آپ کے ساتھ پی ٹی آئی کے بانی رہنما بنے تھے۔ وہ بھی آج کہہ رہے ہیں کہ اکبرایس بابر کو صاف وشفاف انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ نہیں اٹھانا چاہئیے تھا۔ اس پر کیا کہیں گے ؟
ج: پی ٹی آئی میں جمہوریت کو لے کر یہی حامد خان میری تعریف کرتے رہے ہیں۔ وہ ٹی وی کے دوتین پروگرامز میں بھی میرے مؤقف کی تائید کرچکے ہیں۔ ان میں سے ایک پروگرام طلعت حسین کے ساتھ جون دوہزار بائیسں میں تھا۔
اس پروگرام میں حامد خان نے کہا تھا کہ اکبرایس بابر کی یہ بات درست ہے کہ جب تک سیاسی پارٹیوں میں آئین و قانون کے مطابق ا لیکشن کرا کے جمہوریت نہیں لائی جاتی، نہ نئی قیادت سامنے آسکتی ہے اور نہ پارٹی ایک جمہوری ادارہ بن سکتی ہے۔ اگر پی ٹی آئی کامیابی سے یہ تجربہ کر جائے تو دوسری پارٹیوں پر بھی اس کا بڑا اثر ہوگا۔ یہ زیادہ پرانی نہیں صرف ایک برس پہلے کی بات ہے۔ یوٹیوب پر یہ کلپ موجود ہے۔ اب وہ فرما رہے ہیں کہ اکبرایس بابر کو پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج نہیں کرنے چاہیے تھے۔
میرا ایک انٹرویو سلیم صافی کے ساتھ بھی تھا۔ اس میں بھی میں نے اسی نوعیت کی باتیں کی تھیں۔ اس انٹرویو کی حامد خان نے ناصرف بڑی تعریف کی بلکہ مجھے واٹس ایپ پر ستائشی میسیج بھیجا جواب بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ جبکہ حامد خان اور ان کے دست راست احمد اویس ایڈووکیٹ ٹی وی پر آکر یہ اعتراف بھی کرتے رہے کہ اگر حقائق تسلیم کر لئے جائیں تو فارن فنڈنگ کیس پی ٹی آئی کے گلے پڑسکتا ہے۔ اب یہ کہتے ہیں کہ اکبرایس بابر کو تو انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج ہی نہیں کرنے چاہئیے تھے کہ انہوں نے فارن فنڈنگ کیس کیا تھا۔
س: دوہزار گیارہ میں جب آپ کے عمران خان سے اختلافات ہوئے اس کے بعد سے کبھی آپ کی حامد خان کے ساتھ بالمشافہ ملاقات ہوئی؟
ج: نہیں، تاہم بہت سے مواقع پر درمیان کے لوگوں کے ذریعے بالواسطہ پیغام ضرور ملتے رہے۔ اور وہ ان سے میری تعریف کرتے رہے۔ مثلاً لاہور کا رہائشی ایک سابق پی ٹی آئی عہدیدار ایک بار حامد خان سے ملنے گیا ہے تو انہوں نے اس سے میری تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بڑے کمال کا آدمی ہے ، جس مؤقف پر کھڑا تھا۔ ایک انچ بھی اس سے نہیں ہلا ‘‘۔
س: ایک بار آپ نے بتایا تھا کہ جب عمران خان نے مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کا فیصلہ کیا تو میرے ساتھ معراج محمد خان اور حامد خان نے بھی اس کی مخالفت کی تھی۔ کیونکہ ہم اس فیصلے کو پارٹی کے اصولوں کے خلاف سمجھتے تھے۔ آپ کے خیال میں پھر ایسا کیا ہوا کہ حامد خان نے اصولوں کی سیاست سے کنارہ کرلیا اور اب وہ آپ کے ان درست اقدامات کی بھی مخالفت کر رہے ہیں جن کی کچھ عرصہ پہلے تعریف کیا کرتے تھے؟
ج: میں سمجھتا ہوں کہ حامد خان نے اپنی وکلا سیاست کی قیمت پر سب اصولوں کو قربان کردیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ وکلا کی تحریک میں بھی حامد خان پیش پیش تھے۔ نعرے لگائے تھے کہ ’’دھرتی ہوگی ماں کے جیسی ، سب کو ملے گا انصاف‘‘ یہ انصاف کہاں ہے؟ دراصل جب انیس سو ستانوے کے الیکشن ہوئے تو حامد خان قومی سیاست اور پی ٹی آئی میں خاصے متحرک تھے۔ ان انتخابات میں پارٹی کو بدترین شکست ہوئی تو یہ پی ٹی آئی سے دور ہوگئے۔ کئی برس تک انہوں نے یہ دوری برقرار رکھی۔ البتہ عمران خان کے بے حد اصرار پر سال میں ایک بار پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس شریک ہو جایا کرتے تھے۔
میں جب عمران خان کو کہتا کہ وہ حامد خان کے اتنے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟ تو ان کا جواب ہوتا تھا کہ مجبوری ہے، پارٹی میں ایک ہی تو بندہ ہے جس کی کوئی نیوز ویلیو ہے۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں پارٹی میں ایسے لوگوں کی تعداد کم تھی جسے میڈیا جانتا ہو۔ عمران خان کے کہنے پر بھی بعض اوقات حامد خان یہ کہہ کر گول ہوجایا کرتے تھے کہ میرا سپریم کورٹ میں کیس ہے۔ ایک طرح سے وہ پارٹی سے لاتعلق ہوگئے تھے۔ دراصل حامد خان کی بنیادی دلچسپی وکلا کی سیاست سے تھی اور ہے۔ اب وہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کے ذریعے اپنی وکلا سیاست کو کیش کرارہے ہیں۔ اس لئے اصولوں کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رہی۔ بس وہ کسی طرح پی ٹی آئی سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔
عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکالا گیا تو حامد خان ان سے ملنے بنی گالہ گئے۔ حالانکہ ان کے تعلقات مثالی نہیں چل رہے تھے۔ مقصد عمران خان کی دلجوئی کرنا نہیں، بلکہ اس آڑ میں بارکے الیکشن میں انصاف لائرز فورم کی حمایت حاصل کرنا تھی۔ اس میں وہ کامیاب رہے۔ الیکشن میں انصاف لائرز فورم کے سارے ووٹ حامد خان کے پروفیشنل گروپ کو ملے۔ پی ٹی آئی پر اس وقت وکلا کا قبضہ اسی کا تسلسل ہے۔
س: آپ کا مطلب ہے کہ بیرسٹر گوہر علی خان کو پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ دلانے میں حامد خان کا بھی رول ہے ؟
ج: بالکل، ظاہر ہے کہ اب پارٹی حامد خان کے مکمل زیراثر آجائے گی۔ اور ساتھ ہی وہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پارٹی کو اپنی وکلا سیاست میں استعمال کریں گے۔ ایسے میں وہ میرے موقف کو پہلے کی طرح درست قرار دے کر اس سنہری موقع کو کیوں ضائع کریں گے۔ کون سے اصول اور کہاں کے اصول۔ بیرسٹر گوہر علی خان جو اعتزاز احسن کے شاگرد ہیں اور ان کے چیمبر میں بیس برس اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے، وہ حامد خان اور لطیف کھوسہ کے بھی برخوردار ہیں۔ اب ان وکلا کا ٹرائیکا اپنے برخوردار کے ذریعے پوری پارٹی چلائے گا اور اپنے من پسند لوگوں میں پارٹی کے ٹکٹ تقسیم کرے گا۔
صاف نظر آرہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں وکلا کی ایک بڑی تعداد کو الیکشن لڑایا جائے گا۔ ان وکلا کو ان تینوں وکلا کی آشیرباد سے ٹکٹ دئیے جائیں گے۔ شیرافضل مروت پر تو ابھی سے ٹکٹ بیچنے کے الزامات لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ لیکن میں پارٹی پر وکلا کا قبضہ ختم کر اکے دم لوں گا۔ حامد خان جو اپنے بااصول ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، انہوں نے ایک ایسے شخص کی بطور پارٹی چیئرمین نامزدگی کی تائید کردی جس کا کچھ عرصے پہلے تک پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جس کی پارٹی کے لئے کسی قسم کی قربانی نہیں ہے۔ جو پیپلز پارٹی کا چہرہ رہا ہے اور اسی کے ٹکٹ پر اس نے دوہزار اٹھارہ کا الیکشن لڑا تھا۔
لطیف کھوسہ کو لے لیں۔ ایان علی کیس کے دور کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، پی ٹی آئی ان کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہتی رہی۔ اب لطیف کھوسہ عمران خان کے منظور نظر ہیں اور انہیں نہایت تپاک کے ساتھ پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا ہے۔ یعنی جن پارٹیوں کی بے اصول سیاست کے خلاف پی ٹی آئی بنائی گئی تھی۔ انہی پارٹیوں کے سرپلس لوگوں کو سرکا تاج بنایا جارہا ہے۔ قصہ مختصر، تمام اصول اور میرٹ کو پامال کرکے محض اپنی وکلا سیاست اور پاور پالیٹکس کو دوام بخشا جارہا ہے۔ ان لوگوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا جنہوں نے اس پارٹی کو محنت کرکے بنایا اور قربانیاں دیں۔
س: لطیف کھوسہ کا انٹرسٹ بھی سمجھ آگیا۔ پیپلز پارٹی سے نکالے جانے کے بعد انہیں چھتری چاہیے تھی۔ اب وہ یقیناً پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر اگلا الیکشن لڑیں گے۔ یہ اعتزاز احسن کا کیا مفاد کیا ہے؟ انہوں نے اب تک پی ٹی آئی میں شمولیت کا بھی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔
ج: جن و کلا کی سیاست ختم ہو چکی تھی۔ ان میں اعتزاز احسن بھی شامل ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے ووٹ اور سپورٹ پر دوبارہ اپنی انتخابی سیاست زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ اور اعتزاز احسن کو سمجھ ہے کہ جتنی زندگی رہ گئی ہے اس میں اب وہ دوبارہ صرف پیپلز پارٹی کے ووٹوں پر منتخب نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ وہ بھی اب دوسرا شیخ رشید بننا چاہتے ہیں ، جنہوں نے تحریک انصاف کے ووٹوں پر اپنی سیٹ نکالی تھی۔ یہ بھی پی ٹی آئی کے ووٹ استعمال کرکے منتخب ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
س: بہت سے مخالفین کہہ رہے ہیں کہ آپ انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کرکے پی ٹی آئی کو ’’بلے‘‘ کے انتخابی نشان سے محروم کرنا چاہتے ہیں؟
ج: یہ نادان لوگ ہیں۔ جس طرح کا فراڈ پارٹی الیکشن انہوں نے کرایا ’’بلا‘‘ تو ویسے ہی ان کے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔ میں نے اس ’’بلے‘‘ کو واپس دلانے کی کوشش کی۔ میری درخواست میں یہ نہیں لکھا کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لیا جائے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ صاف و شفاف انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا جائے۔ کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ جو الیکشن انہوں نے کرائے ہیں اس پر ان سے نہ صرف ’’بلے‘‘ کا نشان لیا جاسکتا ہے بلکہ پارٹی بھی ڈی لسٹ ہوسکتی ہے۔ میں ہی وہ شخص ہوں جس نے پی ٹی آئی کے لئے ’’بلے‘‘ کا انتخابی نشان الاٹ کرایا تھا۔ اس کے ثبوت میں عمران خان کا دستخط شدہ لیٹر اور الیکشن کمیشن میں اس حوالے سے درخواست جمع کراتے ہوئے میری تصویر موجود ہے۔