نواز طاہر :
عام انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 22 ہزار 771 امیدواروں نے انتخابی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ جن میں ایک ہزار 27 خواتین اور 21 ہزار 694 مرد امیدوار ہیں۔ دوسری جانب ملک کی سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے کارکنوں کا مورال ڈائون ہونا شروع ہوگیا ہے۔ پارٹی کے نئے چیئرمین کی طرف سے فراہم کی جانے والی آکسیجن بھی کام نہیں آرہی۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے اہل امیدواروں کی ابتدائی لسٹ شائع ہوچکی ہے۔ جس میں اگلے چند روز میں اپیلوں پر فیصلے کی روشنی میں کچھ رد و بدل ہوسکتا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کے کئی رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی کی بحالی کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی دوران انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سانحہ نو مئی میں ملوث ہونے کی بنا پر سابق وزرا حماد اظہر، عمر ایوب، مراد سعید، فرخ حبیب اور امین گنڈا پور سمیت 51 افراد کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
ملزمان کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے جاچکے ہیں۔ جبکہ ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا پر ریٹرننگ افسران و نگران حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں پر بھی کڑی تنقید شروع کر دی ہے۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق ان رہنمائوں کی طرف سے مسلسل روپوشی اختیار کرنے اور عدالت میں پیش نہ ہونے پر پارٹی انتخابی مہم بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اگر یہ رہنما خاص طور پر پنجاب اور لاہور کے قائدین روپوشی کے بجائے عدالتوں سے رجوع کرتے تو انتخابی مہم کی صورتحال مختلف ہوسکتی تھی۔ اب جس تیزی کے ساتھ مقدمات میں ان کیخلاف کارروائی آگے بڑھ رہی ہے۔ کارکنان بددل ہو رہے ہیں۔ان ذرائع کے مطابق اقتدار میں مزے اڑانے والے تو آگے پیچھے ہوگئے۔ اب کارکن امتحان میں ہیں۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ’’ن‘‘، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کی انتخابی مہم جاری ہے۔ نون لیگ کی طرف سے اپنے ٹکٹ ہولڈرز کا باقاعدہ اعلان ہونے تک کسی قسم کی قیاس آرائی سے اپنے رہنمائوں کو روک دیا گیا ہے۔
اسی دوران الیکشن کمیشن نے الیکشن کوریج کوڈ آف کنڈکٹ کو سامنے رکھتے ہوئے بعض نشریاتی اداروں کو پیمرا کی جانب سے نوٹس جاری کیے ہیں۔ لاہور کے صحافتی حلقوں میں ان نوٹسز پر دن بھر بحث جاری رہی۔ ان نوٹسز کے علاوہ کوڈ آف کنڈکٹ میں انتخابی سروے شائع اور نشر کرنے پر پابندی کو صحافتی اصولوں کے منافی اور آزادانہ رائے کے برعکس قرار دیا گیا ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سیکریٹری جنرل ارشد انصاری کا کہنا ہے کہ ’آئین کی طرح پی پی ایف یو جے کا ضابطہ اخلاق ذمہ دارانہ رپورٹنگ کیلئے سب سے اہم قانون سمجھا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن شفاف انتخابی عملی یقینی بنانے کیلئے جو اقدامات اٹھاتا ہے۔ ان پر سبھی کو عمل کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا کوڈآف کنڈکٹ جو مروجہ صحافتی اصولوں کے برعکس ہو یا متاثر کرتا ہو۔ اس پر فوری نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔
ملکی تاریخ میں جب بھی الیکشن ہوتے ہیں یا دنیا بھر میں جہاں بھی الیکشن کا عمل ہوتا ہے۔ پولنگ سے پہلے اشاعتی نشریاتی ادارے امیدواروں اور ووٹرز کی رائے کے بارے میں غیر جانبدارانہ سروے روپورٹیں شائع کرتے ہیں۔ یہ صحافتی اداروں اور صحافیوں کا بنیادی پیشہ ورانہ حق ہے۔ اس پر قدغن نہیں ہونی چاہیے۔
دریں اثنا الیکشن کمیشن کی طرف سے سرکاری طور پر جاری کی گئی ابتدائی فہرست کے مطابق مجموعی طور پر قومی اور صوبائی اسمبلی کیلئے 22 ہزار 771 امیدوار میدان میں ہیں۔ جن میں ایک ہزار 27 خواتین اور 21 ہزار 694 مرد امیدوار ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اعدادوشمار میں ٹرانسجینڈر امیدواروں کا الگ سے کوئی ذکر نہیں۔ قومی اسمبلی کیلئے 355 خواتین اور 6 ہزار 94 مرد امیدواروں ہیں۔ جبکہ صوبائی اسمبلیوں کیلئے 16 ہزار 262 میں سے 672 خواتین اور 15 ہزار 596 مرد امیدوار شامل ہیں۔