امت رپورٹ
سانحہ نو مئی میں ملوث کسی کردار کے اسمبلیوں میں پہنچنے کے امکانات معدوم ہیں۔ اس واقعہ میں ملوث افراد کے کاغذات نامزدگی اگر عدالتوں کی جانب سے تسلیم بھی کرلئے جاتے ہیں تو الیکشن میں ان کی کامیابی مشکل ہوگی۔ جبکہ نو مئی کے فسادات میں ملوث افراد کو قانون کے ذریعے انجام تک پہنچانے کے عزم میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے۔
واضح رہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت حماد اظہر، مراد سعید، علی امین گنڈاپور، زلفی، میاں اسلم اقبال، حسان نیازی، جمشید چیمہ، مسرت جمشید چیمہ، اعظم سواتی، میاں عبدالرشید، اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد اور پارٹی کے دیگر رہنمائوں کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسران کی جانب سے مسترد کئے جاچکے ہیں۔ الیکشن کیلئے نااہل قرار دیئے گئے یہ تمام افراد اب ریٹرننگ افسروں کے فیصلے کے خلاف ٹریبونلز میں اپیل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ اپیلٹ ٹریبونلز ہائیکورٹس کے جج صاحبان پر مشتمل ہیں۔ نااہل قرار دیئے گئے امیدواروں کی اپیلیں اگر ٹریبونلز بھی رد کر دیتے ہیں تو پھر ان کے پاس سپریم کورٹ جانا آخری آپشن ہوگا۔
اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سانحہ نو مئی کے کردار اگر عدالتوں کے ذریعے الیکشن لڑنے کا حق حاصل کرلیتے ہیں، تب بھی انتخابات میں ان کی کامیابی کا امکان معدوم ہوگا کہ اس معاملے سے قانونی پہلو کے علاوہ سیاسی پہلو بھی جڑا ہے۔ وہ افراد جن کے سانحہ نو مئی میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد اداروں کے پاس موجود ہیں۔
اگر پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں تو یہ پورے نظام کیلئے ایک بڑا سوالیہ نشان ہوگا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں نو مئی جیسا واقعہ ہوتا تو اس کے ذمہ داران کو اب تک سزائیں ہوجانی تھیں۔ اس کے برعکس یہاں سزا ہونی تو دور کی بات ہے۔ بہت سے مرکزی کردار اب تک گرفتار بھی نہیں ہوسکے ہیں اور الٹا انہیں اسمبلیوں میں پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ سانحہ نو مئی کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور حملہ آوروں کو ہر صورت قانون کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچانا ایک طے شدہ پالیسی ہے۔ اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کیلئے حال ہی میں عدالتوں کے بعض فیصلوں کو لے کر چند بقراطی تجزیہ نگار اور تحریک انصاف کے ہمنوا یوٹیوبرز یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسے عمران خان سمیت سانحہ نو مئی کے دیگر کرداروں کیلئے ہوا کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔
تاہم ذرائع نے اس تاثر کو سختی سے رد کرتے ہوئے کہا کہ نو مئی کے واقعہ کے ایک ماہ بعد اور پھر درمیانی عرصے میں بعض بیرونی سفارشیں بھی آنی شروع ہوگئی تھیں۔ جن میں 9 مئی کے کرداروں کو کچھ رعایت دینے کی درخواست کی جارہی تھی۔ تاہم حکام نے سختی سے ان سفارشوں کو مسترد کردیا اور کوئی گھاس نہیں ڈالی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نو مئی کے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانے کیلئے ریاست بہت سنجیدہ ہے۔ کیونکہ پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ اگر ان کرداروں کو رعایت دیدی گئی تو پھر مستقبل میں سب کیلئے یہ راستہ کھل جائے گا کہ وہ احتجاج کے نام پر جتھے لے کر فوجی تنصیبات کی طرف چل پڑیں۔
یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی ملک کی سلامتی کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ ہر قسم کی بغاوت، خانہ جنگی کی کوشش یا فساد کو پوری طاقت سے کچل دیا جائے۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی سیاسی پارٹی نے نام نہاد احتجاج کی آڑ میں طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت فوجی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر حملے کئے۔ انہیں کیسے معاف کیا جاسکتا ہے؟
یاد رہے کہ امریکہ میں کپیٹل ہل پر حملے، لندن اور فرانس فسادات کے منصوبہ سازوں سمیت تمام کرداروں کو عبرت ناک سزائیں دی جاچکی ہیں۔ لیکن کسی کو اخلاقیات کے دورے نہیں پڑے اور نہ ہی ایمنسٹی کے پیٹ میں مروڑ ہوا۔ اس کے برعکس پاکستان میں عسکری تنصیبات کو ٹارگٹ کرنے جیسا انتہائی سنگین قدم اٹھانے والے کرداروں کو مظلوم بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ کیپٹل ہل حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے اسٹیورٹ روڈز کو اٹھارہ برس قید کی سزا سنائی گئی۔
جبکہ اس کے ساتھی کیلی میگز کو بارہ برس کی قید ہوئی۔ کیپٹل ہل پر حملے کے ماسٹر مائنڈ اسٹیورٹ روڈز کو سزا سناتے ہوئے جج نے یہ تاریخی جملہ بولا۔ ’’میں نے آج تک کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا، جنہیں میں نے سزا دی ہو۔ تم اس ملک، عوام اور جمہوریت کیلئے خطرہ ہو‘‘۔ کیپٹل ہل پر حملہ کیس میں ایک ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا اور اسّی افراد کو سزائیں سنائی گئیں۔
اسی طرح برطانیہ میں پرتشدد مظاہروں کے ملزمان کو جسے لندن فسادات کہا جاتا ہے، سخت ترین سزائیں دی گئیں۔ اس سلسلے میں دن رات عدالتیں لگائی گئیں۔ بارہ سو سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ سخت سزائوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تیرہ برس بعد بھی برطانیہ میں ایساکوئی واقعہ دوبارہ رونما نہیں ہو سکا۔ فرانس میں گزشتہ برس ہونے والے فسادات کے منصوبہ سازوں اور حملہ آوروں کو بھی سخت سزائیں دی جاچکی ہیں۔
ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں گیارہ سو سے زائد نابالغ تھے۔ چنانچہ انہیں سزائیں دینے کیلئے قانون میں ترمیم کرنی پڑی۔ سینکڑوں افراد آج اپنے کئے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں فسادیوں سے نمٹنے میں قدر مشترک یہ تھی کہ ان کی عدالتوں نے بھی بھرپور تعاون کیا۔