اقبال اعوان:
انتخابی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی کراچی کے تاجر پریشان ہو گئے۔ مالی بحران کی شکار سیاسی پارٹیوں نے مختلف طریقوں سے فنڈنگ کی کوششیں شروع کر دیں۔ آئل ٹینکرز، مال بردار گاڑیوں، انٹر سٹی کوچیں، بسیں، پبلک ٹرانسپورٹ، چنگ چی رکشوں کے ٹرانسپورٹرز، بلڈرز، پکوان سینٹرز کے مالکان سمیت دیگر شعبوں کے مالکان سے بھی اس حوالے سے رابطے شروع کر دیے گئے ہیں۔
ماضی میں مختلف پارٹیوں سے وابستہ مارکیٹوں کے تاجر رہنما، رقم اکٹھی کر کے دیتے تھے۔ تاہم بڑھتی مہنگائی اور خراب ترین معاشی صورت حال میں تاجر طبقہ اور دیگر شعبوں کے لوگ پریشان ہیں۔ اس لیے سیاسی رہنما خود رابطے کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ کم چندے کے باعث اکثریتی پارٹیاں مالی بحران کا شکار ہیں۔
متحدہ پاکستان اپنے کارکنان مختلف شعبوں میں بھرتی کرانے کے بعد ماہانہ چندہ وصول کرتی تھی، جبکہ متحدہ رہنما اپنی اور جمع شدہ فنڈنگ پارٹی کو جمع کراتے تھے۔ تاہم پارٹی میں اندرونی تنازعے اور گروپ بندی کے بعد چندے کا سیٹ اپ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کراچی میں متحدہ نے بھتہ خوری کا آغاز کیا تھا، جس کے بعد مختلف پارٹیوں نے بھی موقع غنیمت جان کر بھتہ وصولی شروع کر دی تھی۔ کارکنان اپنے خرچے بھی پورے کرتے تھے اور پارٹی فنڈ میں بھی رقم جمع کراتے تھے۔
کراچی آپریشن کے دوران جب بھتہ خوری کے خلاف کارروائی ہوئی تب سے سیاسی پارٹیاں مالی بحران کا شکار ہوتی گئیں۔ اس کے بعد سیاسی پارٹیوں کو صنعت کاروں، تاجروں، ٹرانسپوٹرز، پکوان سینٹر، نجی اسکول، نجی اسپتال، بلڈرز، کباڑیوں، چھوٹے کارخانے والوں نے بھی ماہانہ یا دیگر موقع پر چندہ دینا بند کر دیا تھا۔ اب عام انتخابات کے حوالے سے جن امیدواروں کو ٹکٹ دیے گئے ہیں وہ پارٹی فنڈز میں رقم دیں گے اور انتخابی سرگرمیوں کے اخراجات خود اٹھائیں گے۔ جبکہ خرچہ پانی نہ ملنے پر کارکن بھی زیادہ محنت نہیں کررہے ہیں اور عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
کراچی کے تاجر ہمیشہ بھتہ خوروں، جرائم پیشہ، سیاسی پارٹیوں کے لیے سونے کی چڑیا ثابت ہوئے ہیں کہ ہر صورت میں ریلی نکالو، جلسہ کرو، کوئی پروگرام کرو، اس حوالے سے علاقے کے تاجروں کو گھیرا جاتا ہے۔ ماضی میں متحدہ، اے این پی، سنی تحریک اور دیگر جماعتیں اولڈ سٹی ایریا کے تاجروں کو گھیرتی رہی ہیں۔ جبکہ گینگ وار اور متحدہ میں اولڈ سٹی ایریا میں بھتہ پر قبضے کی جنگ ہوتی تھی۔
اب عام انتخابات سر پر آرہے ہیں اور اولڈ سٹی ایریا کے تاجر پریشان ہیں کہ تاجر رہنمائوں سے اور بڑے بڑے ہول سیلرز تاجروں سے سیاسی پارٹیاں رابطے کررہی ہیں کہ تشہیری مہم، کارنر میٹنگز، ریلی اور جلسوں کے لیے فنڈز کی ضرورت ہے۔ اب تاجر طبقہ پریشان ہے کہ اس آفر کو بھتہ خوری میں ڈالتے ہیں اور معاملہ لیک ہوتا ہے تو معمولی کارروائی کے بعد بھی پارٹی کے لوگ ان کے خلاف محاذ بنا لیں گے۔ کراچی میں 20 لاکھ سے زائد تاجر ہیں۔ صدر سے ٹاور، لی مارکیٹ، لیاری تک 200 سے زائد بڑی مارکیٹیں ہیں۔ اس لیے مختلف سیاسی پارٹیوں نے نظریں گاڑ دی ہیں۔
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کئی تاجر رہنمائوں نے بتایا کہ سیاسی پارٹیوں کے رہنما خود رابطہ کررہے ہیں کہ کارکنان یا ذمہ دار فنڈز مانگنے کے دوران بھتہ خوری کے حوالے سے نہ پھنس جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہریوں میں مہنگائی کی وجہ سے قوت خرید کم ہو چکی ہے، کاروبار پہلے ہی شدید متاثر ہورہا ہے۔ اب سیاسی پارٹیوں میں کس کس کو فنڈ دیں گے۔
دوسری جانب آئل ٹینکرز کے مالکان، انٹر سٹی کوچیں بسوں، مال بردار گاڑیوں کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹرز اور چنگ چی رکشوں کے ٹرانسپورٹرز سے علاقے کی سطح پر سیاسی پارٹیاں رابطے کررہی ہیں کہ انتخابات کی تیاری کے حوالے سے مدد کی جائے۔ ٹرانسپورٹرز رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کو تو نہیں دے سکتے۔ علاقے کی سرگرم پارٹیوں کو تو فنڈز دینا ہوں گے۔
سیاسی پارٹیاں امیدواروں کو ٹاسک دے رہی ہیں کہ وہ ہر شعبے کے لوگوں سے رابطہ کریں اور پارٹی کے علاوہ اپنے اخراجات پورے کریں۔ سیاسی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ جس پارٹی کی تشہیری مہم زیادہ ہو گی اس کا ووٹ بینک زیادہ ہوگا۔