تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید عبدالباسط
پاکستان کی معاشی حالت ہرگزرتے روز کے ساتھ بگڑ رہی ہے۔ مہنگائی میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ جس ٹی وی چینل کو دیکھیں، اخبار پڑھیں یا اپوزیشن کی باتیں سنیں تو مسائل کا حل نہیں ملتا۔ نہ کوئی تجزیہ کار، نہ اپوزیشن اور نہ ہی کوئی اور شخص عوامی مسائل کا حل پیش کرتا نظر آتا ہے۔
عوام اپنی مجبوری اور بے بسی سے پریشان ہیں۔انہیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کوئی امید کی کرن نظر آئے گی بھی یا نہیں؟ جتنے بھی صحافی، ماہرینِ معاشیات، تجزیہ کار یا سیاستدان ہم دیکھتے ہیں یا تو وہ تنقید کر رہے ہیں یا پھر اس کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ جو صحافی یا تجزیہ کار سچ کے متعلق بتاتا ہے، اسے حکومت اپنا دشمن سمجھ لیتی ہے اور ان کو دشمن کا نمائندہ سمجھتے ہوئے ان کے بیانات کو منفی طور پر لیا جاتا ہے۔
کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ حکومت تنقید کا مثبت پہلو دیکھے اور اپنی کوتاہیوں اورخامیوں کی اصلاح پر توجہ دے؟ ایسی صورت میں حکومت اور عوام دونوں کیلئے مثبت تبدیلی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ حکومت کے لوگوں کو خوشامدی ٹولوں نے یا پھر کاروباری مافیا نے گھیر رکھا ہے اور اس مافیا سے نکلتے ہیں تو عالمی ادارے حکومت پر اپنا زور دکھاتے ہوئے وہ احکامات جاری کراتے ہیں جس سے ملک کو نقصان ہوتا ہے۔
عوامی ووٹ سے برسراقتدار آنیوالی حکومتیں ہمیشہ سے عوامی سمجھی جاتی تھی، مگر اب لوگوں کی یہ سوچ بدل رہی ہے کیونکہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ عوام کے مسائل اور پریشانیوں کا حل تلاش کرنے کی بجائے مسائل میں اضافہ کیاجارہا ہے۔ پریشانیاں بڑھ رہی ہیں جبکہ معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔
مہنگائی اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ معیشت کے میدان میں غلط فیصلے یا پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں تو ان کا اثر مہنگائی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس کی مثال تیل درآمد کرنے سے لی جاسکتی ہے کہ درآمد کے بوجھ کے باعث پاکستان میں ہمیشہ سے پیٹرول کی قیمتیں کبھی قابو میں نہیں آئیں اور تیل درآمد کرنے کا بوجھ کبھی کم نہیں ہوا۔
آج وزراء یہ فرما رہے ہیں کہ پیٹرول کا استعمال کم کیجئے۔میں وزراء کی اس منطق پر انہیں مشورہ دینا چاہوں گا کہ پیٹرول کا کم استعمال تو اسی وقت ہوسکتا ہے جب عوام کے پاس پبلک ٹرانسپورٹ اتنی بہترین ہو جس کا استعمال کرکے وزراء، امیر، غریب سب آمدورفت کی سہولت سے استفادہ کرسکیں۔
برطانیہ، امریکا، چین اور جاپان میں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ ٹرانسپورٹ کی سہولت سب کیلئے مساوی ہے مگر پاکستان میں اس کے برعکس ٹرانسپورٹ اتنی ناقص ہے کہ غریب ہو یا امیر، وہ اپنے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام خود کرنے پر مجبور ہے، جس کی وجہ سے پیٹرول کی کھپت بڑھ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اسکوٹروں اور گاڑیوں کی تعداد میں گزشتہ کئی برس سے اضافہ ہوتے ہوئے نظر آرہا ہے اور اسی اضافے کے باعث آلودگی بھی ہر سال بڑھتی نظر آتی ہے جبکہ یہ صرف ایک مثال ہے جس سے پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں کمی ہوسکتی ہے اور وہ بھی صرف چند دنوں میں۔ صرف حکومت کو اچھی بسیں درآمد کرنی پڑیں گی۔
دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ عوام پر ٹیکسز کا بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت کاروباری ادارے بنائے جس سے اسے آمدنی ہوگی اور قیمتوں پر کنٹرول بھی آسکتا ہے تاہم نئے حکومتی ادارے بنانا تو دور کی بات، جو پرانے ہیں، یا تو حکومت سنبھال نہیں پا رہی، یا پھر انہیں بیچنے کیلئے پر تول رہی ہے۔
اس صورتحال کا فائدہ نجی شعبہ اٹھاتا ہے اور اپنی خدمات کی من مانی قیمتیں عوام سے وصول کرتا ہے۔ آج جو بھی صنعتیں اپنی اشیاء مہنگی بیچتی ہیں، ان کی قیمتیں کنٹرول اس لیے نہیں کی جاسکتیں کیونکہ ان کا مافیا بہت مضبوط ہوچکا ہے، اس وجہ سے کہ اگر وہ اپنا کاروبار بند کردیں تو حکومت کے پاس کوئی اور متبادل نہیں۔
یہاں میں دوبارہ یہ کہنا چاہوں گا کہ حکومت مختلف شعبہ جات میں اپنے ادارے بنائے اور موجودہ اداروں کو مضبوط کرے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی مثال ہمارے سامنے ہے جو کسی دور میں ڈرامے بنایا کرتا تھا۔ اور دنیا بھر میں مقبول ترین ڈرامہ پی ٹی وی کا سمجھا جاتا تھا۔ آج اس ادارے میں لوگ وہی ہیں مگر وہاں آج کل ڈرامے نہیں بنتے بلکہ بیرونِ ملک سے خریدے جاتے ہیں جبکہ پی ٹی وی کے پاس تمام تر سہولیات موجود ہیں۔
اسی طرح اگر ہم پی ٹی وی کو دوبارہ زندہ کریں اور ڈرامے بنائیں تو پھر جو لوگ اس ادارے میں کام کر رہے ہیں اور تنخواہیں لے رہے ہیں، وہ دوبارہ اس ادارے کیلئے مختلف پروگرامز بنا کر ادارے کو مزید کامیاب کرسکتے ہیں جبکہ یہ کوئی واحد ادارہ نہیں۔ حکومت کے پاس بہت سے ایسے ادارے موجود ہیں۔
ایسے تمام اداروں سے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔ اگر حکومت اپنے اداروں سے پیسہ کمائے گی تو پھر قومی خزانے پر بوجھ بھی کم ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے حکومت عوام پر ٹیکس لگانے کی بجائے خود پیسہ کمانا شروع کردے گی، اسی پیسے سے حکومت چلائی جاسکتی ہے۔
ماضی میں پاکستان کی تاریخ میں بہت اچھے اچھے ادارے بنے اور دنیا بھر میں ان کی تعریف ہوئی۔ دوسرا ادارہ جو مقبول ہوا، وہ پی آئی اے تھا جس کی تعریف ملکۂ برطانیہ نے بھی کی تھی، مگر یہ ادارہ بھی کبھی تبدیل ہوتا نظر نہیں آیا۔ کچھ وقت کیلئے عارضی طور پر یہ منافع میں نظر آتا ہے، مگر پھر سیاست کا شکار ہوجاتا ہے۔
پی آئی اے سے اگر حکومت فائدہ اٹھانا چاہے اور کم قیمت پر عوام کو ٹکٹ اور کارگو کی ٹرانسپورٹیشن کے مواقع دے تو تجارت میں بھی اضافہ ہوگا اور قومی ائیر لائن کے تمام جہاز مکمل گنجائش کے استعمال کے ساتھ چلنا شروع ہوجائیں گے۔
حکومت کے سب ادارے صرف کمائی یا منافعے کیلئے نہیں ہوتے۔ کچھ ادارے عوام کی فلاح و بہبود کی نیت سے بلا منافع پالیسی پر چلتے ہیں۔ اس وجہ سے عوام کو دستیاب سہولیات اور کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے۔ میرا اشارہ پاکستان ریلوے کی طرف ہے۔
اگر پاکستان ریلوے کو نو پرافٹ، نو لاس کی بنیاد پر چلایا جائے تو بہت سے غریبوں کا فائدہ ہوگا اور اندرونی تجارت میں تیزی نظر آئے گی۔ ایک صوبہ دوسرے صوبے کے ساتھ آسانی سے کاروبار کرتا نظر آئے گا۔
مختصر یہ کہ مسائل کا حل پاکستان کے پاس موجود ہے اور ہماری حکومت مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے معاشی ماہرین سے مدد لینے کی کوشش کرتی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض لیا جاتا ہے اور پھر اس کا سود ادا کرنے کیلئے ملک کی نسلوں کو قرض میں جھونک دیا جاتا ہے جبکہ ہمیں من حیث القوم اپنے مسائل کا حل سچائی کے ساتھ تلاش کرنے اور اسے اپنانے کی ضرورت ہے۔