کیا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اقدام درست ہے؟

تحریر۔جاوید چوہدری

ہندواتا کا فروغ اور مودیت کی جامیابی کےیے بھارتی بنیےکی قانونو انصاف کے منہ ہرزناٹےدار طمانچہ جس میں بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحالی کی درخواستیں مسترد کر دیں بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کیلئے دائر اپیلوں پر متعصبانہ فیصلہ سنا دیا، عدالت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا 5 اگست 2019 کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، آرٹیکل 370 عارضی تھا، ہر فیصلہ قانونی دائرے میں نہیں آتا۔آرٹیکل 370 منسوخی کیخلاف درخواست، بھارتی سپریم کورٹ میں سماعت نہ ہوسکی،عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا صدر کا حکم آئینی طور پر درست ہے، بھارتی صدر کے پاس اختیارات ہیں، آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر کی شمولیت کو منجمد نہیں کرتا، جموں کشمیر اسمبلی کی تشکیل کا مقصد مستقل باڈی بنانا نہیں تھا بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے سے متعلق درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات 30 ستمبر 2024 تک کرانے کے احکامات بھی جاری کر دیئے۔واضح رہے کہ بھارت نے 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی، مودی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، بھارت نے اس دوران کشمیر میں ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کیں۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کیخلاف سماعت کیلئے بھارتی سپریم کورٹ نےایک خصوصی بنچ بھی تشکیل دیا ہے،2019 سے قبل ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے، کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے مودی حکومت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا، بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے ہنگامی سماعتوں کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا معاملہ 4 سال تک دانستہ طور پر لٹکائے رکھا، بھارت نے کشمیر میں ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کیں، عوام نے بھارت کے ظالمانہ فیصلے کیخلاف بھرپور احتجاج کیا۔تجزہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کو بھارتی عدالتوں سے انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی، مودی مکمل طور پر ہندوستان کے تمام اداروں بشمول عدلیہ، فوج، گورننس، میڈیا اور پارلیمنٹ کو کنٹرول کر چکا ہے۔آزاد کشمیرکے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری،وزراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق،سپیکر قانونساز اسمبلی چوہدری طیف اکبر کے علاوہ سابق وزرا اعظم،وزرا کرام،سیاسی ساجی مذہبی تجارتی،علمی ادبی صحافتی اکابرین سمیت سول سوساٸٹی حریت قیادت کے علاوہ کانگریس رہنما غلام نبی آزاد نے بھی فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے،
ادھر کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔غلام نبی آزاد سمیت دگر کا کہنا ہے کہ انہیں سپریم کورٹ سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، اب مقبوضہ کشمیر میں زمینیں مہنگی ہوں گی، پورے کشمیر میں کوئی بھی اس فیصلے سے خوش نہیں، عدالتی فیصلے سے ریاست کی معیشت کو نقصان ہوگا۔مایوس ہیں لیکن ناامید نہیں، جدوجہد آزادی جاری رہے گی،حریت راہنما عمر عبداللہ نے بھی شدید افسوس کا اظہار کیا ہے،دوسری جانب نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے بھی بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مایوس ہوں لیکن ناامید نہیں، جدوجہد جاری رکھیں گے، عمر عبداللہ نے مذید کہا کہ بی جے پی کو یہاں تک پہنچنے میں کئی دہائیاں لگیں، ہم طویل سفر کیلئے بھی تیار ہیں۔صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے مودی سرکار کے اقدام کو برقرار رکھنا ایک متعاصبانہ فیصلہ ہے جو مودی کی ہندو توا پالیسیوں کو دوام دینے کے متراف ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اس فیصلے سے بھارت کے دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت اور نام نہاد سیکولراسٹیٹ ہونے کے دعوؤں کی قلعی دنیا کے سامنے اب کھل کر آشکار ہو چکی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف خود بھارت کے قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے اور کشمیری ایسے کسی فیصلے کے پابند نہیں ہیں اور کشمیری اس فیصلے کے خلاف سراپا اجتجاج ہیں اور اس کی بھر پور مزحمت کرتے ہیں، صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ بھارت یہ جان لے کہ وہ اپنے توپ و تفنگ سے کشمیری عوام کے جذبہ خریت کو زیر نہیں کر سکتا۔ کشمیری مقبوضہ کشمیر کی آزادی تک اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے۔
وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر چوہدری انوارالحق نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کو کشمیریوں کے آئینی و انسانی حقوق کا قاتل قرار دیا ہے، وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ سے کشمیریوں کو کوئی امید نہیں تھی،بھارتی سپریم کورٹ نے انصاف کے تقاضوں کو پامال کیا۔انہوں نے کہا کہ 370 اور 35 اے کی منسوخی بھارتی حکومت کا جابرانہ فیصلہ تھا،مجھے یقین تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ بھارتی حکومت کے فیصلے کا دفاع کرے گی۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو بھارت کے کسی ادارے حتی کہ بھارتی سپریم کورٹ سے بھی کوئی امید نہیں تھی،تمام بھارتی ادارے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیری اپنی حق خودارادیت کی تحریک جاری رکھیں گے،شہداء کشمیر نے تحریک آزادی کو اپنے خون سے سینچا ہے،بھارت ہندوتوا کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔بھارتی حکومت، ادارے نے ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ غداری کی، تاریخ دہرائی، کسی ایک موقع پر بھی بھارتی عدالت نے کشمیری عوام کو ریلیف نہیں دیا، بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 پر فیصلہ سنا کر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہونے کا ثبوت دیا۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کو کسی صورت بھارت کا نہ پہلے حصہ مانتے تھے نہ آئندہ مانے گے ان شااللہ کشمیر کی آزادی کی جد وجہد جاری وساری رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ کشمیری الحاق پاکستان کے داعی ہیں انشائاللہ وہ یہ منزل حاصل کر کے رہیں گے، سپیکر آزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی چوہدری لطیف اکبر نے آرٹیکل 370 کے بارے میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنی انتہاء پسند حکومت کی ایما پر متعصبانہ فیصلہ دیا، سپیکر آزاد جموں وکشمیر کشمیر اسمبلی نے بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ فیصلے کے بعد سینٹرل پریس کلب مظفرآباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو کشمیری یکسر مسترد کرتے ہیں، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ عالمی قوانین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم پاکستان کو آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کی دعوت دیتا ہوں، حکومت پاکستان کو یو این، او آئی سی سمیت تمام فورمز پر جانا چاہیے، سپیکراسمبلی نے کہا کہ آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی اس متعصبانہ فیصلے کے خلاف بھرپور آواز اٹھائے گی،