اقبال اعوان :
کراچی میں جرائم کی شرح بڑھنے پر نجی چوکیداروں کا روزگار ایک بار پھر چمک اٹھا۔ راتوں کو تجارتی مراکز، رہائشی آبادیوں کی گلی کوچوں میں سائیکل پر سیٹی بجاتے نظر آتے ہیں۔ اکثریت پختون بولنے والے طبقے کی ہے۔
چوکیداروں کی اکثریت ڈنڈے بردار ہوتی ہے۔ ماہانہ بنیاد پر فی گھر 50 روپے اور بنگلے والوں سے ہزار روپے جبکہ دکان والوں سے 100 روپے سے 500 روپے وصول کرتے ہیں۔ کراچی میں لسانی فسادات کے بعد 22/23 سال قبل نجی چوکیدار کا سلسلہ ختم کر دیا گیا تھا۔ تاہم دکانداروں نے مارکیٹوں میں دوبارہ بحال کر دیا تھا۔
چوکیداروں کا کہنا ہے کہ مقامی تھانے میں انٹری ہوتی ہے اور پولیس سے رابطے میں ہوتے ہیں۔ جبکہ ان کا گلہ تھا کہ شہری یا تاجر ان کا خیال نہیں رکھتے۔ مہینے بعد چند روپے دیتے ہوئے پریشان ہوتے ہیں جبکہ موسمی شدت برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ نہتے ہوتے ہیں اور موجودہ حالات میں جان کے خطرات بھی ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی میں پولیس کے مسائل ختم نہیں ہوتے ہیں۔ وی آئی پی ڈیوٹی انتظام ڈیوٹی سمیت دیگر جگہوں پر مصروف زیادہ ہونے پر راتوں کو گشت کا سلسلہ بہت کم ہوتا ہے۔ جبکہ تھانوں کا عملہ راتوں کو کم ڈیوٹی پر ہوتا ہے۔ مارکیٹوں، بازاروں کے دکاندار دن بھر سیکورٹی گارڈ سے حفاظت کراتے ہیں اور رات کو دکان کی حفاظت کے لیے نجی چوکیدار رکھے ہوئے ہیں ہر مارکیٹ میں 4/5 چوکیدار ہوتے ہیں۔ دکانیں بند ہونے کے بعد تالے چیک کرنا اور تالے کا رخ مخصوص سمت اوپر نیچے کر دینا ہوتا ہے کہ صبح یہ دیکھ کر مطمئن ہوتے ہیں کہ تالوں کو کسی نے چھیڑا نہیں ہے۔ ا
س طرح راتوں کو مارکیٹوں کے داخلی راستوں کی گرل بھی بند کر دی جاتی ہے۔ آج کل تاجروں کو خوف ہوتا ہے کہ رات کو دکانیں بند کر کے چلے جاتے ہیں۔ شارٹ سرکٹ یا بھتہ نہ دینے یا دیگر تنازعے پر دکان کو آگ لگائی جا سکتی ہے۔ اس لیے چوکیدار پر اعتبار کرتے ہیں اور اکثریتی دکاندار مارکیٹ کے چوکیداروں سے فون پر رابطوں میں ہوتے ہیں۔
معروف تاجر رہنما اور قومی اسمبلی کے حلقے این اے 239 لیاری سے تحریک لبیک کے امیدوار شرجیل گوپلانی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ کراچی میں راتوں کو پولیس کا گشت زیادہ نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ دن میں سیکورٹی گارڈ اور راتوں کو چوکیدار ضروری ہیں۔ ڈنڈا بردار یہ چوکیدار مارکیٹوں میں راتوں کو چوکیداری کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ چور ڈکیت ان کو دیکھ کر کم وارداتیں کرتے ہیں۔ شہر میں نجی چوکیدار کا نیٹ ورک نہ ہو تو لوٹ مار اور چوری کا بازار موجودہ حالات سے بھی زیادہ خراب ہوگا۔ چھوٹی مارکیٹوں میں چوکیدار 500 اور بڑی مارکیٹوں میں ہزار روپے مہینے کے لیتے ہیں۔ اس طرح اچھی تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں راتوں کو نجی چوکیدار کا نظام کراچی میں ہی زیادہ ہے، لاہور، کوئٹہ، پشاور اور دیگر جگہوں پر چوکیداری نظام ہے تاہم کم ہے۔ اور ڈیفنس کے علاقے میں بھی نجی چوکیدار الگ گشت کرتے ہیں۔ بنگلوں پر اندر گارڈ یا چوکیدار الگ ہوتے ہیں اور فی بنگلہ ایک ہزار روپے تک مہینے میں لیتے ہیں۔ اسی طرح کراچی میں تجارتی مراکز اور رہائشی آبادیوں میں ہزاروں نجی چوکیدار کام کرتے ہیں۔
شاہ فیصل کالونی میں چوکیداری کرنے والے نصیب خان کا کہنا تھا کہ، گزشتہ 25 سال سے چوکیداری کررہے ہیں وہ خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ڈنڈا لے کر سائیکل پر گشت کرتے ہیں۔ گھروں سے علاقے میں رات کو بارہ بجے کے بعد آتے ہیں کہ آج کل بجلی کی لوڈ شیڈنگ راتوں کو بھی ہوتی ہے اور لوگ موبائل یا دیگر مصروفیات میں دیر سے سوتے ہیں اور رات کو ایک بجے سے اذان فجر تک لازمی سائیکل پر سیٹی بجاتے گلی میں جاتے ہیں۔ پرانے وقتوں کی طرح اب آواز نہیں لگاتے کہ جاگتے رہنا، اب لوگ بولتے ہیں کہ ہم نے جاگنا ہے تو تم کس مرض کی دوا ہو۔ لہٰذا سیٹی بجاتے گزرتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ شہر بھر کے ہر تھانے میں چوکیداری نظام ہے مارکیٹوں، علاقوں کے چوکیدار مقامی پولیس سے تعاون کرتے ہیں
اسی طرح مارکیٹ والے چوکیدار اسلم خان کا کہنا ہے کہ مارکیٹوں میں مرکزی اور دیگر گیٹ کی گرل بند کر کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ راتوں کو اندر انگیٹھی لگا کر ہاتھ تاپتے ہیں ان کی موجودگی دیکھ کر راتوں کو وارداتیں کرنے والے نہیں آتے ہیں اور چوکیدار کو 500 روپے فی دکان والے دیتے ہیں۔ اس طرح ہر چوکیدار کی تنخواہ 40 سے 50 ہزار روپے بن جاتی ہے دن بھر سوتے ہیں اور راتوں کو جاگ کر ڈیوٹی دیتے ہیں۔