ارشاد کھوکھر:
عام انتخابات کے نتائج کے بعد حکومت سازی کے لئے جوڑ توڑ میں تیزی آگئی ہے۔ وزارت عظمیٰ کے لئے میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے نام سرفہرست ہیں۔ بلاول کے مقابلے میں شہباز شریف کو معمولی سبقت حاصل ہے۔
مصالحانہ بیانیے اور انتظامی صلاحیتیں منوانے کے باعث سابق وزیراعظم مقتدر حلقوں کی گڈ بک میں بھی ہیں۔ دوسری پوزیشن کے باوجود پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ’’کنگ میکر‘‘ کارڈ ہے۔ تاہم معاملہ بند گلی تک نہیں پہنچے گا۔ اس بات کے پیپلز پارٹی کے اہم اجلاس میں بھی اشارے مل گئے ہیں۔ جب کہ عام انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، اس کے مطابق کوئی بھی جماعت پیپلزپارٹی کے بغیر حکومت نہیں بناسکتی۔ جس کو مدنظر رکھ کر پیپلز پارٹی کی قیادت وزارت عظمیٰ کے لئے بلاول بھٹو کے نام پر رضا مند کرنے کے لئے کوششیں کر رہی ہیں۔ جبکہ نواز لیگ کی قیادت نے پیپلز پارٹی کو صدر پاکستان اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے دینے کی پیشکش بھی کردی ہے۔ ساتھ دینے کی صورت میں بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کو وزارت اعلیٰ کاعہدہ مل جائے گا۔ اس سلسلے میں حتمی اعلان 22 فروری تک متوقع ہے۔
8 فروری کو منعقدہ عام انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں وہ نواز لیگ کی امید کے برعکس ہیں۔ تاہم اس کے باوجود بھی نواز لیگ کی قیادت اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنا وزیراعظم منتخب کرانے اور پی ڈی ایم کی طرز پر حکومت بنانے کے لئے پرامید ہے۔ حکومت سازی میں اہم کردار نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا ہے۔ وہ دونوں جماعتیں اگر مل جائیں تو انہیں حکومت بنانے کے لئے کسی تیسری جماعت کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تاہم دونوں جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ متحدہ سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔
حکومت سازی کے حوالے سے اب تک نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان جو دوسری ملاقات ہوئی اس میں دونوں جماعتوں نے اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ وزیراعظم ان کی جماعت کا ہونا چاہئے۔ جس میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اس مرتبہ پیپلز پارٹی کے امیدوار بلاول بھٹو زرداری کو موقع دیا جائے۔
مذکورہ ملاقات میں نواز لیگ کی جانب سے یہ تجویز بھی آئی کہ شیئرنگ فارمولے کے تحت دونوں جماعتوں کو موقع دیا جائے۔ ڈھائی برس ایک جماعت کا اور ڈھائی برس دوسری جماعت کا وزیراعظم ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ نواز لیگ کی قیادت نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو ملک کے صدر اور آئندہ سینیٹ انتخابات کے بعد چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی بھی پیشکش کی۔ ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت وزیراعظم کے بدلے مذکورہ دونوں عہدے نواز لیگ کو دینے کے لئے تیار ہے۔ تاہم آخری ملاقات میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی حکومت سازی کے متعلق جو بھی تجاویز سامنے آئی ہیں وہ تجاویز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے سامنے رکھے گی۔ جس کے بعد دوبارہ رابطہ ہوگا۔ بظاہر جو خبریں منظر عام پر آئی ہیں۔
ان کے مطابق گزشتہ روز اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا جو اجلاس منعقد ہوا اس میں کئی رہنمائوں نے نواز لیگ سے مل کر حکومت بنانے کی سخت مخالفت کی۔ اور موقف اختیار کیا کہ اس سے پیپلز پارٹی کو نقصان ہوگا۔ جس کا تجربہ وہ پی ڈی ایم اے کی حکومت میں دیکھ چکے ہیں۔
مذکورہ اجلاس میں ڈھائی ڈھائی برس کے وزیراعظم کی تجویز بھی مسترد کی گئی۔ اور بعض رہنمائوں نے یہ موقف بھی اختیار کیا کہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کے انتخاب میں پیپلز پارٹی ، نواز لیگ کے امیدوار کی حمایت کرنے کے بعد حکومت کا حصہ نہ بنے بلکہ اپوزیشن کا حصہ بن جائے۔ جس سے پارٹی کو فائدہ ہوگا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں یہ بات بھی زیر غور آئی کہ پیپلز پارٹی اب اس پوزیشن میں ہے کہ اس کے بغیر کوئی بھی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لئے بلاول کو وزیراعظم بنانے کے لئے کوشش جاری رکھی جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ نواز لیگ کی قیادت اپنا وزیراعظم منتخب کرانے کے لئے کافی پرامید ہے کیونکہ میاں نواز شریف کے مقابلے میں میاں شہباز شریف مصالحانہ بیانیے اور اچھا ایڈمنسٹریٹر ہونے کے باعث مقتدر حلقوں کی گڈ بکس میں ہیں۔ اور اس حوالے سے مقتدر حلقے بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مذکورہ حلقے چاہتے ہیں کہ ملک کی اس نازک صورتحال میں تمام جماعتوں کو مل جل کر مصالحانہ پالیسی کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے تاکہ ملک کو جو چیلنج سامنے ہیں۔ اس سے نکل سکیں۔
پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی پوزیشن کو دیکھا جائے تو نواز لیگ کو اس لئے بھی کافی ایج حاصل ہے کہ آزاد امیدواروں کو چھوڑ کر پارٹی پوزیشن کے حساب سے اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ نون نمبر ون پر ہے۔ اور پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر ہے۔ آصف علی زرداری یہ صلاحیت ضرور رکھتے ہیں کہ آزاد امیدواروں کو قائل کرکے پیپلز پارٹی میں شمولیت کراکے اپنے اراکین کی تعداد نواز لیگ سے بھی آگے لے جاسکتے ہیں۔ لیکن صرف چند آزاد اراکین کی شمولیت کا معاملہ نہیں اس کے لئے پیپلز پارٹی کو کم از کم پچیس تیس آزاد امیدواروں کی ضرورت پڑے گی اور جہاں تک آزاد امیدواروں کی بات ہے تو ان کا رجحان زیادہ تر نواز لیگ کی جانب ہے۔ چند آزاد اراکین پہلے ہی نواز لیگ میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔
نواز لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ پرامید ہیں کہ پیپلز پارٹی، نواز لیگ کے وزیراعظم کے لئے آمادہ ہوجائے گی۔ جس کے لئے ناصرف نئے صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے بلکہ اس کے لئے نواز لیگ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کو وزیراعلیٰ کا عہدہ بھی دینے کے لئے تیار ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی اگر پوزیشن دیکھی جائے تو 51 جنرل نشستوں میں سے پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف کے گیارہ ، گیارہ اور نواز لیگ کے 10 ایم پی اے منتخب ہوچکے ہیں۔ اور چھ آزاد اراکین بھی وہاں منتخب ہوئے ہیں۔
اس طرح نواز لیگ اور جے یو آئی چاہیں تو وہاں اپنی حکومت آسانی سے بناسکتی ہیں۔ لیکن وزیراعظم کے انتخاب میں ساتھ دینے پر مسلم لیگ نون وزیراعلیٰ بلوچستان کے لئے پیپلز پارٹی کا ساتھ دے سکتی ہے۔
جہاں تک بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی بات ہے تو پیپلز پارٹی کی قیادت سابق وفاقی وزیر سرفراز بگٹی کو وزیراعلیٰ بلوچستان بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ اس طرح وزیراعظم کے انتخاب کے لئے نمبر گیم کو دیکھا جائے تو عملی طور پر وہ پوری ہوچکی ہے۔ اب صرف اس بات کا اعلان ہونا باقی ہے کہ وزیراعظم کس جماعت سے ہوگا۔ جس کا حتمی فیصلہ 22 فروری تک ہوجانے کا امکان ہے۔