سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہینِ رسالت کے ملزم زبیر صابری کی درخواست ضمانت 50 ہزار روپے کےمچلکوں کے عوض منظور کر لی۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےقانون کی پاسداری نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے لگتا ہے اسلام آباد میں کوئی گھر محفوظ نہیں، بنا وارنٹ پولیس لوگوں کے گھروں کا تقدس کیسے پامال کر سکتی ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قتل اور ڈکیتی کا پرچہ تو پولیس فوری درج نہیں کرتی،کیا پولیس شکایت کنندہ کی جیب میں ہے؟ ہماری اور آپ کی تنخواہ عوام دیتے ہیں۔ تفتیشی افسر کیخلاف مقدمہ درج کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! ایسے مقدمات تو سپریم کورٹ آنے ہی نہیں چاہیں۔ آرٹیکل چودہ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ہمیں لاء افسران سے معاونت نہیں مل رہی ۔ لاء افسران مدعی کے وکیل بن جاتے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس محمد علی باقر نے ریمارکس دیے اور کہا کہ قانون کہہ رہا ہے توہینِ مذیب کیس کی تحقیقات ایس پی کرے گا۔ قانون کے ہوتے ہوئے ماتحت کیسے تحقیقات کرسکتا ہے؟۔
دوران سماعت مدعی کی جانب سے “پیر صاحب، پیر صاحب” لفظ استعمال کرنے پر چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ برہم ہو گئے اور کہا کہ کیا یہ نام قانون میں درج ہے؟ کس قانون میں دم کرنے کا لکھا ہوا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آ پ کا تو ایمان ہی مضبوط نہیں ہے؟
سپریم کورٹ نے توہینِ رسالت کیس کے ملزم کی ضمانت 50 ہزار روپے مچلکوں کے عوض منظور کرتے ہوئے حکم دیا کہ اس کیس کی مزید انکوائری کی جائے۔ توہینِ مذہب کے حساس معاملات کی نگرانی اور تفتیش ایس پی رینک سے کم کا افسر نہیں کرے گا۔
سپریم کورٹ کے حکم پر ایس ایس پی اور ایس پی اسلام آباد پولیس عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ توہینِ مذہب کے کیس کی تفتیش ایس پی نے خود کرنا ہوتی ہے۔ قانون کی خلاف ورزی پر ایس پی کو معطل کریں یا ایس ایس پی کو؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ وکیل کے مطابق پولیس توہینِ مذہب کے کیسز میں ڈرتی ہے اور جیسے ہی کیس آتا ہے، مقدمہ درج کر لیتی ہے۔ پولیس ڈرپوک ہونے لگی تو بہادر کون رہے گا؟ بغیر وارنٹ کیا پولیس کسی کے گھر میں داخل ہو سکتی ہے؟ چادر اور چار دیواری کا تقدس کہاں گیا؟ کیا آپ کے گھر کوئی بغیر وارنٹ جا کر تلاشی لے سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس آرڈر 2002 ء کے مطابق بغیر وارنٹ گرفتاری کسی کے گھر داخل ہونے پر پانچ سال کی سزا بنتی ہے۔ ایک تصویر کی بنیاد پر توہینِ مذہب کا کیس بنا دیا، جیسے آپ ہی اسلام کے محافظ ہیں۔ پہلے توہینِ مذہب کا کیس بنا، گرفتاری ہوئی پھر جا کر تصویر برآمد کرائی۔ کیا پولیس نے یہ ثابت کرنا ہے کہ توہینِ مذہب عام ہے اور اس سے اسلام بلند ہو گا؟
ان کا کہنا تھا کہ ایک شخص اپنے دوست کو دم کرانے گیا، وہاں تصویر دیکھی اور آ کر مقدمہ بنا دیا۔ پولیس بندوقیں رکھ کر بھی ڈرپوک ہے۔ ہم اس قسم کے کیسز سے تھک چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے شکایت گزار سے استفسار کیا کہ قرآن میں پیر کا ذکر ہے؟اس میں پیر کا نہیں بلکہ رہبر کا ذکر ہے۔ اب کیا اللہ سے بھی نوک جھونک کرو گے؟ اس پر شکایت گزار نے کہا کہ میں تو پیر کو نہیں مانتا، صرف دوست کو دم کرانے گیا تھا۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر آپ پیر کو نہیں مانتے تو دوست کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ پیر کتنے عرصے سے گرفتار ہے؟ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پیر زبیر صابری 7 ماہ سے گرفتار ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پیر کا دم اپنے کام نہیں آ رہا، جو سات ماہ سے جیل میں ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ یقینی بنائیں کہ مذہب کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو۔انہوں نے پولیس کو ہدایت کی کہ توہین مذہب کے کیسز کو سنجیدگی سے لیں۔