صدر علوی کی جانب سے نومنتخب وزیراعظم سے حلف نہ لینے کی چال بھی ناکام ہونے جارہی ہے، فائل فوٹو 
 صدر علوی کی جانب سے نومنتخب وزیراعظم سے حلف نہ لینے کی چال بھی ناکام ہونے جارہی ہے، فائل فوٹو 

صدر علوی کے ذریعے حکومت سازی میں تاخیر کے تمام منصوبے ناکام

امت رپورٹ :
عمران خان نے صدر علوی کے ذریعے حکومت سازی کا عمل سبوتاژ کرنے کے جو منصوبے بنائے تھے، وہ کیسے ناکام بنائے گئے؟ اس کا ذکر آگے چل کر کرتے ہیں۔
شطرنج کی بساط پر کھیلی جانے والی چالیں، اتنی پیچیدہ ہیں کہ عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہیں۔

واضح رہے کہ صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے متعلق سمری اعتراض لگاکر واپس بھیج دی ہے۔ اجلاس بلانے کے لئے آئین کے تحت دی گئی ڈیڈ لائن میں صرف ایک دن باقی ہے۔ تاہم نئی صورتحال میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی حکمت عملی طے کرلی گئی ہے۔ اس کے لئے مختلف آپشن زیر غور ہیں۔ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ کل یعنی انتیس فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہر صورت ہوگا۔ آئینی طور پر صدر اسے نہیں روک سکتے۔ سوال یہ ہے کہ صدر علوی جب اجلاس کو زیادہ عرصہ لٹکا نے کا اختیار نہیں رکھتے تو محض اس میں دو تین دن کی تاخیر کرکے انہوں نے اتنی بدنامی کیوں مول لی؟

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے بتاتے چلیں کہ حکومت سازی کے عمل میں تاخیر سے متعلق پلان بارہ فروری کو ہی بنالیا گیا تھا جب رؤف حسن اور عمیر نیازی پر مشتمل تحریک انصاف کے دور کنی وفد نے صدر عارف سے ایوان صدر میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کے اصل مقاصد کو چھپانے کے لئے بظاہر یہ خبر چلائی گئی کہ پی ٹی آئی کا وفد صدر مملکت کو انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سے آگاہ کرنے گیا تھا۔ تاہم ذرائع کے مطابق اس ملاقات کا مقصد صدر مملکت کو یہ پیغام پہنچانا تھا کہ وہ نگران وزیر اعظم کی سمری پر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب نہ کریں۔ جس سے صدر علوی نے بے چوں و چرا اتفاق کر لیا کہ وہ پہلے ہی عمران خان کے زیر عتاب ہیں اور ان کی مزید ناراضگی مول لینا نہیں چاہتے۔

اسی پلان کے مطابق صدر عارف علوی نے ایوان نامکمل ہونے کا بہانہ بناکر قومی اسمبلی کااجلاس طلب کرنے سے انکار کیا۔ آئین کی رو سے الیکشن کے بعد اکیس روز تک اجلاس بلانا ضروری ہے۔ بصورت دیگر اسپیکر قومی اسمبلی یا سیکریٹری قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ یہ اجلاس بلا سکتے ہیں اور بعض قانونی ماہرین کے بقول ڈیڈلائن پوری ہونے کے نتیجے میں اجلاس بلانے کے لئے کسی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور یہ کہ از خود اجلاس طلب ہوجائے گا۔

یہیں سے پی ٹی آئی کے پلان کے دوسرے حصے پر عمل ہونا تھا۔ وہ یہ کہ پی ٹی آئی نے ایسی صورت میں یہ معاملہ پہلے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ لے جانے کی تیاری کر رکھی ہے۔ تاکہ حکومت سازی کے عمل کو زیادہ سے زیادہ تاخیر کا شکار کر کے آئینی بحران پیدا کیا جاسکے۔ پلان کے تحت صدر علوی کے انکار کے باوجود قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے پر اعلیٰ عدالتوں میں یہ مدعا اٹھایا جائے گا کہ پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کو 23 مخصوص نشستیں دیئے بغیر چونکہ اسمبلی نامکمل ہے۔ چنانچہ بلایا جانے والا اجلاس غیر آئینی ہے۔ اگر صدر مملکت یہ اجلاس بلالیتے تو پھر ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کے جانے کے لئے گراؤنڈ نہیں بن سکتا تھا۔ اسی لئے صدر علوی کو اجلاس بلانے سے روکا گیا تھا۔ تاہم دوسری طرف سے اس چال کا توڑ کرکے پی ٹی آئی کے منصوبہ سازوں کو زچ کردیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی خوش تھی کہ صدر علوی ان کے دئیے گئے پلان پر عمل کرکے حکومت سازی کے عمل میں تاخیر کا سبب بن رہے ہیں۔ ایسے میں پیر کی شام اچانک الیکشن کمیشن کی کاز لسٹ جاری ہوتی ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے معاملے پر منگل کے روز چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ سماعت کرے گا۔ یہ کاز لسٹ ایک طرح سے پی ٹی آئی کے پلان پر بم گرانے کے مترادف تھی۔ جس کے اصل باریک پہلوؤں کی طرف میڈیا نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ ان درخواستوں کی سماعت کے نتیجے میں صدر علوی کے ذریعے پی ٹی آئی کا ترتیب کردہ پلان ملیا میٹ ہوچکا ہے۔

منگل کے روز الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر چھ درخواستوں کی سماعت کی۔ ان درخواستوں میں ایم کیو ایم پاکستان کے خالد مقبول صدیقی، مولوی اقبال حیدر، کنزالسادات اور محمود احمد خان شامل ہیں۔ بعد ازاں نون لیگ اور پیپلز پارٹی بھی اس میں فریق بن گئیں۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان یہ مدعا لے کر الیکشن کمیشن میں گئی ہے کہ سنی اتحاد کونسل چونکہ قومی اسمبلی میں ایک نشست بھی حاصل نہیں کرسکی۔ لہٰذا مخصوص نشستیں ان میں تقسیم کی جائیں۔

ان درخواستوں میں سب سے اہم درخواست محمود احمد خان کی ہے۔ محمود احمد پی ٹی آئی اسلام آباد چیپٹر کے سابق کوآرڈی نیٹر ہیں۔ ایک وقت میں وہ قطر میں پی ٹی آئی کے لئے فنڈز ریزنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ تاہم کئی برس پہلے انہوں نے غلط پارٹی پالیسیوں کے سبب عمران خان سے راہیں جدا کر لی تھیں۔ وہ بھی پی ٹی آئی کے ان نظریاتی رہنماؤں میں شامل ہیں۔ جو پارٹی پر قبضہ کرنے والے نوواردوں کے خلاف ہیں اور خاص طور پر پی ٹی آئی کے سنی اتحاد کونسل میں انضمام کو ایک سیاسی المیہ سمجھتے ہیں۔

محمود احمد کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ جب انہوں نے دیکھا کہ مخصوص نشستوں کے معاملے پر پی ٹی آئی صدر علوی کے ذریعے حکومت سازی کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے پلان پر چل رہی ہے تو انہوں نے اپنے وکلا سے مشاورت کے بعد پی ٹی آئی کے سنی اتحاد کونسل میں انضمام کے خلاف درخواست دائر کردی۔ جس سے مخصوص نشستوں کا معاملہ بھی جڑا ہے۔

محمود احمد نے الیکشن کمیشن میں دائر اپنی درخواست میں استدعا کی ہے کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے انضمام سے متعلق معاہدے اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے حلف ناموں کی تصدیق شدہ نقول فراہم کی جائیں۔ محمود احمد خان کو یقین ہے کہ ان کی استدعا پر ان دستاویزات کی نقول انہیں فراہم کردی جائیں گی۔ یوں پہلی بار پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے انضمام سے متعلق معاہدے کی اصل تفصیلات بھی منظر عام پر آجائیں گی۔

اب بیان کرتے چلیں کہ پی ٹی آئی کی جانب سے صدر علوی کے ذریعے حکومت سازی کے عمل کو سبوتاژ کرنے کا پلان ناکام کیسے ہونے جا رہا ہے۔ رپورٹ کے آغاز میں ہی جس کا ذکر کیا گیا ہے۔ رازداروں کا کہنا ہے کہ چھ درخواست گزاروں کی جانب سے بروقت درخواستیں دائر نہ ہوتیں تو پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کا معاملہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ لے جاکر اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتی تھی۔

اگر ان اعلی عدالتوں کی طرف سے الیکشن کمیشن پاکستان کو حکم دیا جاتا کہ وہ یہ نشستیں فوری سنی اتحاد کونسل کو الاٹ کرے تو اس کے پاس حکم سے انکار کا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ تاہم اب چونکہ اس معاملے پر الیکشن کمیشن میں درخواست دائر ہو چکی ہے۔ لہذا یہ معاملہ sub judice (زیر سماعت) ہو چکا ہے۔ اب جب تک ان درخواستوں کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ الیکشن کمیشن اپنے طور پر یا کسی عدالت کے حکم پر پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دے سکتا۔ یوں پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کی اصطلاح میں (معذرت کے ساتھ) مخصوص نشستوں کا پروگرام تو بظاہر ’’وڑ‘‘ گیا ہے۔

دوسری جانب اب اگر پی ٹی آئی یہ فریاد لے کر ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ جاتی ہے کہ اسے مخصوص نشستیں الاٹ کیے بغیر ادھوری اسمبلی کا اجلاس بلانا غیر آئینی و غیر قانونی ہے، تو یقینی طور پر اسے یہ جواب ہی ملے گا کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔ جب تک اس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ تب تک اسمبلی کا اجلاس روک کر حکومت سازی کے عمل کو کیسے متاثر کیا جاسکتا ہے؟

دوسری جانب صدر علوی نے منتخب وزیراعظم سے حلف نہ لینے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس کا توڑ یہ نکالا گیا ہے کہ انتیس فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلاکر ان تمام منتخب ارکان سے حلف لے لیا جائے گا جن کے نوٹیفکیشن جاری ہوچکے ہیں۔ جس کے بعد صدر کے انتخاب کے لئے مطلوبہ الیکٹورل کالج کی تکمیل ہوجائے گی۔

الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کو صدر کے انتخاب کے شیڈول کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔ یوں صدر کا انتخاب ہونے کے بعد نومنتخب وزیراعظم کو صدر علوی سے حلف لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ کیونکہ وہ سابق ہوچکے ہوں گے۔ اب وزیراعظم، نئے صدر سے حلف لے گا۔ یوں عمران خان نے صدر علوی کے ذریعے جو پلان ترتیب دیئے تھے۔ وہ سب فارغ ہوجائیں گے۔