امت رپورٹ :
آخرکار علی امین گنڈا پور نے اپنے قائد عمران خان کی طرح یوٹرن لیتے ہوئے فارم 47 والے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کرلی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل وہ بڑی رعونت کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ وہ موجودہ وزیراعظم اور صدر مملکت کو تسلیم نہیں کرتے کہ ان کی دانست میں وہ فارم 45کے بجائے فارم 47 کے ذریعے منتخب ہوکر ایوان میں پہنچے۔اپنے اس موقف کو سپورٹ کرتے ہوئے انہوں نے وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی تھی۔ جبکہ دیگر تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اس موقع پر موجود تھے۔
اسی طرح وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ خیبرپختونخوا کے موقع پر علی امین گنڈا پور نے یہ کہہ کر ان کا استقبال نہیں کیا تھا کہ وہ مینڈیٹ چوری کرنے والے کو وزیراعظم تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر بدھ کے روز وہ اسی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے لئے پہنچے۔ جسے نرم الفاظ میں قلابازی کھانا کہتے ہیں۔ جبکہ اردو لغت میں اس کے لئے ایک سخت محاورہ بھی موجود ہے۔
اس ملاقات کے موقع پر جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ تو شہباز شریف کو مینڈیٹ پر ڈاکہ مارنے والا وزیراعظم قرار دے رہے تھے۔ اب کیا ہوا؟ اس سوال پر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ تاریخی یوٹرن لیتے ہوئے گنڈا پور کا کہنا تھا ’’وزیراعظم پشاور آئے تو میں اس وقت وہاں موجود نہ تھا اور ویسے بھی ہماری روایت ہے کہ جب کوئی مہمان آتا ہے تو ہم اس کا استقبال کرتے ہیں‘‘۔ حالانکہ یہ ریکارڈ پر ہے کہ اس وقت علی امین گنڈا پور نے دوٹوک کہا تھا کہ شہباز شریف کا استقبال انہوں نے اس لئے نہیں کیا تھا کہ وہ فارم سینتالیس پر منتخب ہوئے اور وہ انہیں وزیراعظم تسلیم نہیں کرتے۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی المعروف سنی اتحاد کونسل یہ بے سروپا بیانیہ لے کر چل رہی ہے کہ حکمراں پارٹیاں فارم پینتالیس میں فارم سینتالیس کے ذریعے ردوبدل کرکے جیتی ہیں۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ چند روز پہلے تک وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نہایت رعونت کے ساتھ یہ کہہ رہے تھے کہ وہ دھاندلی سے آنے والے وزیراعظم کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر اب راتوں رات ایسا کیا ہوا کہ انہیں قلابازی کھانی پڑی؟ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے بقول علی امین گنڈا پور کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اپنے ’’مرشد‘‘ کے کہنے پر انہوں نے مسلسل وفاق کے خلاف جو جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس کے نتائج بڑے سنگین نکلنے والے ہیں۔
انہیں بالواسطہ یہ پیغام بھی پہنچایا گیا کہ ملک میں مزید انتشار کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ گرائونڈ پر ہونے والی پیش رفت نے بھی علی امین گنڈا پور کو چوکنا کردیا۔ جس میں اثاثے چھپانے سے متعلق الیکشن کمیشن میں ان کے خلاف دائر پٹیشن بھی اہم ہے۔ جو سماعت کے لئے مقرر ہوچکی ہے اور چھبیس مارچ کو الیکشن کمیشن نے انہیں طلب کر رکھا ہے۔ اس پٹیشن سے آنے والی خطرے کی بو نے بھی علی امین گنڈا پور کے ہوش ٹھکانے پر لگائے۔
انہیں احساس ہے کہ انہوں نے اپنے اثاثوں سے متعلق الیکشن کمیشن کو غلط معلومات فراہم کیں اور یہ ثابت ہونے کے نتیجے میں نااہل ہوگئے تو وزارت اعلیٰ اور اسمبلی کی رکنیت دونوں چلی جائیں گی۔ علی امین گنڈا پور کو یہ ادراک بھی ہوچکا ہے کہ نو مئی کے کیسز کو لے کر ان پر جلد کڑا وقت آنے والا ہے۔
اس وقت اگرچہ ان کیسوں میں عدالتیں ضمانت کے طور پر انہیں تحفظ فراہم کر رہی ہیں۔ تاہم جلد آرمی ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کے ذریعے یہ رکاوٹ بھی دور کردی جائے گی۔ جس کے بعد نہ صرف اب تک ہاتھ نہ آنے والے سانحہ نو مئی کے کرداروں کی گرفتاریاں ممکن ہوپائیں گی۔ بلکہ ان کے خلاف ملٹری کورٹس میں مقدمات چلنے میں حائل رکاوٹیں بھی دور ہوجائیں گی۔ یہ وہ تمام عوامل ہیں، جنہوں نے علی امین گنڈا پور کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور وہ دامے، درمے، سخنے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کرنے پہنچ گئے۔
علی امین گنڈا پور نہیں چاہتے کہ حادثاتی طور پر انہیں صوبے کی حکمرانی کا جو اتنا بڑا منصب ملا ہے۔ وہ اسے کھوکر اڈیالہ جیل کے مکین بن جائیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ’’بڑھکوں‘‘ سے گریز کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کے ساتھ سیاسی بات چیت شروع کرنے پر آمادہ ہوئے۔ تاکہ آنے والے دنوں کی ممکنہ سختیوں سے بچ سکیں۔ اگرچہ یہ ایک اچھا سائن ہے۔ تاہم باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ سانحہ نو مئی میں انہوں نے جو کردار ادا کیا۔ اس سے پھر بھی بچت ممکن نہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ اچانک مفاہمت کی اختیار کردہ پالیسی علی امین گنڈاپور کو نو مئی کے کیسز سے بچانے میں کتنا کردار ادا کرتی ہے؟