حسام فاروقی:
کراچی میں ٹریفک پولیس کی جانب سے رمضان میں 12مقامات کو ’’کمائی‘‘ کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ شہریوں اور مال بردار گاڑیوں کو تنگ کرکے یومیہ 20 لاکھ روپے تک بٹورے جارہے ہیں۔ بعض جگہوں پر پرائیوٹ لوگوں کو بھی ٹریفک پولیس نے یومیہ اجرت کی بنیاد پر بھرتی کر رکھا ہے جن کا کام ٹھیلے، پتھارے والوں سے بھتہ وصول کرنا ہے۔ اس کے ساتھ جگہ جگہ بنے غیرقانونی رکشہ اسٹینڈوں سے بھی ٹریفک پولیس یومیہ لاکھوں روپے رشوت وصول کر رہی ہے۔
ٹریفک پولیس ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ رشوت خوری ایس او ٹریفک لیاقت آباد اکرم کی سر پرستی میں کی جا رہی ہے اور ایک ہزار روپے فی گاڑی کے حساب سے وقت سے قبل ہی بڑی گاڑیوں کو لیاقت آباد کے گنجان آباد علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جاتی ہے، جس کے باعث ڈاک خانے چوک اور لیاقت آباد 10نمبر پل کے نیچے بدترین ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔
اس کے ساتھ موتی محل سے کراچی یونیورسٹی جاتے ہوئے نیپا پل کے نیچے ٹریفک پولیس اہلکار صبح سے لے کر شام تک کھڑے ہوتے ہیں، جن کا ساتھ وہاں کی علاقہ پولیس بھی دے رہی ہوتی ہے، جن کا کام لوگوں کو روکنا اور ان سے کسی نا کسی صورت رشوت وصولی کرنا ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ شام تک جاری رہتا ہے جس کے بعد، دوسرے اہلکار شفٹ بدلنے پر مذکورہ مقام پر پہنچ کر اسی سلسلے کو رات گئے تک جاری رکھتے ہیں۔
اسی طرحت تیسرا پیدا گیری کا بڑا پوائنٹ ٹریفک پولیس نے احسن آباد موڑ کو بنایا ہوا ہے، جہاں سے گزرنے والی مال بردار گاڑیوں سے رشوت وصول کی جاتی ہے اور اسی مقام سے بھاری گاڑیوں کو بھی دن کے اوقات میں شہر میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔
چوتھا پوائنٹ نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں قلندریہ چورنگی سے سخی حسن چورنگی آنے والی سڑک پر ٹریفک پولیس کی جانب سے قائم ہے، جہاں بھی بڑے پیمانے پر ٹریفک پولیس اہلکار صبح سے رات گئے تک گاڑیوں ، سوزوکیوں ، ٹرک ، اور موٹر سائیکل سواروں سے مختلف بہانوں سے لاکھوں روپے رشوت وصول کرتے ہیں۔ ،چوتھا بڑا پوائنٹ سہراب گوٹھ پل کے نیچے قائم کیا گیا ہے۔
شفیق موڑ سے سہراب گوٹھ جاتے ہوئے پل کے نیچے موڑ پر ٹریفک پولیس اہلکاروں نے ایک پکٹ قائم کی ہوئی ہے جہاں شہر سے باہر نکلنے والے عام گاڑیوں اور مال بردار گاڑیوں کو روکا جاتا ہے ، اور وہاں ان سے رشوت وصول کی جاتی ہے۔ پانچواں پوائنٹ الآصف اسکوائر کا علاقہ ہے جہاں شہر میں داخل ہونے والی سڑک پر ٹریفک پولیس نے اپنی پکٹ لگائی ہوئی ہے اور وہاں سے مال بردار گاڑیوں کو 1500روپے رشوت لے کر شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ مال بردار سوزوکیوں اور پانی سپلائی کرنے والی چھوٹی گاڑیوں سے الگ رشوت وصول کی جاتی ہے۔
چھٹا پوائنٹ بنارس پل کے نیچے ، ساتواں پوائنٹ سائٹ ایریا میں نورس چورنگی پر، آٹھواں پوائنٹ حبیب بینک چورنگی پر، نواں پوائنٹ قائدآباد مرغی خانہ اسٹاپ پر، دسواں پوائنٹ گلشن حدید کے مرکزی دروازے کے سامنے، گیارہواں پوائنٹ ، نیو کراچی صبا سنیما کے سامنے اور بارہواں پوائنٹ منگھو پیر چنگی ناکے پر قائم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی شہر میں کئی چھوٹے بڑے پوائنٹ قائم کئے گئے ہیں۔
ان مقامات پر موجود پان کے کیبن والوں سے بھی ٹریفک پولیس اہلکاروں نے سیٹنگ بنا رکھی ہے جس کی وجہ سے شکار گھیرنے کے بعد اس سے رشوت کا معاملہ طے ہوجانے پر ان پان کے کیبن کی طرف بھیج دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پان کے کیبن پر بیٹھے شخص کو رشوت کی رقم دے دو۔ جب پان کے کیبن کے مالک کی جانب سے ٹریفک پولیس کو رقم وصول ہو جانے کا سگنل دیا جاتا ہے تو پھر متاثرہ شہری کی گاڑی کو چھوڑا جاتا ہے۔
اسی طرح ٹریفک پولیس نے اپنے نجی کارندے مختلف مقامات سے ٹھیلے والوں، پتھارے والوں، اور جگہ جگہ موجود غیر قانونی رکشہ اسٹینڈوں سے بھتہ وصول کرنے کے لئے بھی رکھے ہوئے ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹریفک پولیس کو ہی سب سے زیادہ مال جمع کرنے کا اختیار حاصل ہے اور پولیس اہلکار بھاری رشوت ادا کرکے اپنا ٹرانسفر ٹریفک پولیس سمیت لائسنس برانچ میں کرواتے ہیں۔ جب تک ٹریفک پولیس کو رشوت وصول کرنے اور ٹھیلے پتھاروں سمیت غیر قانونی پارکنگ مافیا کی سر پرستی کرنے سے روکا نہیں جاتا، اس وقت تک کراچی میں ٹریفک جام کے مسائل کو حل کرنا کسی بھی صورت ممکن نہیں۔
رپورٹ کے سلسلے میں موقف حاصل کرنے کے لیے ڈی آئی جی ٹریفک اقبال دارا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔